پاکستان سے افغان با شندوں کو واپس بھجوانے کے عمل کے اعلان سے تا ایندم ایک تسلسل کے ساتھ دراندازی کی مساعی کو براہ راست افغان حکومت سے تو نہیں جوڑا جا سکتا لیکن خوارج کی روک تھام اور سرحدی خلاف ورزی سے باز رکھنے اور اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کی ذمہ داری میں طالبان حکومت کی ناکامی کسی سے پوشیدہ امر نہیںایسے میں پاکستان کی جانب سے اپنے دفاع میں ان عناصر کے خلاف کہیں بھی کارروائی کے حق کا استعمال اب ناگزیر ہو گیا ہے اس کے باوجود پاکستان کی جانب سے صرف برداشت اور تحمل کا مظاہرہ ہی سامنے آیا ہے جو ایک ذمہ دارانہ ریاستی کردار ہے لیکن تابکے؟ افغانستان کو بھی اب اس امر کا احساس ہونا چاہئے کہ پانی سر سے اونچا ہو چکا لیکن صورتحال یہ ہے کہ افغانستان کی سرزمین سے پاکستان میں دراندازی کا سلسلہ نہ صرف جاری ہے بلکہ بعض صورتوں میں ایک دن میں دہشت گردی کے کئی کئی واقعات رونما ہوتے ہیں۔تازہ واقعے میں شمالی وزیرستان کے علاقے حسن خیل میں خوارج کے ایک گروپ نے دراندازی کی کوشش کی جسے سیکورٹی فورسز نے موثر طریقے سے ناکام بنا دیا۔ افغانستان میں متعدد مسلح گروپوں کی موجودگی اور وہاں کی صورتحال کے پیش نظر دوحہ مذاکرات میں افغان طالبان سے اپنی سرزمین دوسروں کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کا وعدہ لیا گیا تھا۔ کابل پر کنٹرول حاصل کرنے والے افغان طالبان تاحال اس کی پاسداری میں ناکام رہے ہیںپاکستان عبوری افغان حکومت سے مسلسل مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ اپنی جانب سرحدی نگرانی کے موثر انتظامات یقینی بنائے۔پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لئے افغان سرزمین کے استعمال کو روکے۔دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کے گلے پڑنے والی دہشت گردی کی یہ جنگ دراصل امریکہ کی شروع کی گئی جنگ ہے جسے وہ منطقی انجام تک پہنچائے بغیر افغانستان سے نکلا اور اپنا مہلک اسلحہ بھی افغانستان میں چھوڑ گیا جسے دہشت گرد اور خوارج اب پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ نے افغانستان سے امریکی اسلحہ واپس لے جانے کا اعلان تو کیا لیکن تاحال اس پر عملدرآمد کی نوبت نہیں آئی۔اب جبکہ امریکہ بگرام ایئر بیس میں واپس آچکا ہے تو بعید نہیں کہ ان کا چھوڑا ہوا اسلحہ خود انہی کے خلاف بھی استعمال ہو اور اس اسلحے کا داعش کے ہاتھ لگنے سے روکنا ممکن نہیں اس لئے کہ اسی اسلحے کی بھاری قیمت کھلے عام فروخت ہو رہی ہے جسے داعش اور دیگر گروپوں کی جانب سے خریدنا ان کے لئے کشش کا باعث امر ہے یوں امریکی اسلحہ امریکہ ہی کے خلاف استعمال ہو سکتا ہے جو خود امریکہ کے لئے خود کردہ راعلاج نیست کے مصداق ثابت ہو گا۔اس طرح کے حالات خطے میں امن و استحکام کے لئے پہلے سے موجود خطرات میں اضافہ اور نئے خطرات پیدا کرنے کا باعث امر بن گئے ہیں۔ پاکستان بارہا امریکہ سے مطالبہ کر چکا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے میں پاکستان کی معاونت کرے لیکن امریکی خاموشی اور اسکی طرف سے ان دہشت گرد ملکوں کے حوالے سے پراسرار خاموشی بادی النظر میں یہی تاثر دیتا ہے کہ انہیں درپردہ امریکہ کی سرپرستی بھی حاصل ہے اسی لئے وہ پاکستان میں بلاخوف دہشت و وحشت کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں۔ پاکستان کیخلاف الحادی قوتوں کا اپنا ایجنڈا ہے جس کی تکمیل کے لئے وہ مصروف عمل بھی ہیں۔ دہشت گرد شریف اللہ کی امریکی حوالگی کے بعد دہشت گرد کارروائیوں میں نہ صرف اضافہ ہوا ہے بلکہ ان میں شدت بھی پیدا ہوئی ہے اور پاکستان کے دو صوبوں میں آگ بھڑک رہی ہے لیکن عالمی برادری اس کے باوجود خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے بے شک دہشت گردوں کے خلاف ہماری بہادر سکیورٹی فورسز مسلسل برسرپیکار ہیں اور کامیاب آپریشن بھی کر رہی ہیں جس میں وہ اب تک سینکڑوں دہشت گردوں کا صفایا کر چکی ہیں۔ لہٰذا دہشت گردی کی نئی لہر کو روکنے کے لئے جہاں موثر اور ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے وہیں نیشنل ایکشن پلان کا ازسرنو جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔بدقسمتی سے ملک میں افغانستان سے تعلقات کے حوالے سے بھی خیبر پختونخوا اور وفاق میں پالیسی کا اختلاف ہے ہمارے حکمران بٹے ہوئے اور نیمے دروں نیمے بیروں کی کیفیت کا شکار ہیںاس صورتحال سے نکل کر جب تک پوری قوت کے ساتھ دہشت گردوں کے خلاف قومی سطح پر اقدامات نہیں ہوں گے اس طرح کے واقعات ہماری قومی سلامتی پر سوالیہ نشان کی صورت بنتے رہیں گے دہشت گردوں کا سر کچلنے کے لئے جہاں ہمارے جوان یکسو اور پرعزم ہیں اور مسلسل قربانیاں بھی دینے سے دریغ نہیں کرتے اسی طرح پوری قوم کو بھی اس عفریت کے مقابلے کیلئے متحد ہونا ہو گا تاکہ کوئی باقی نہ رہے۔
