پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں مسلسل بدانتظامی کا دور دورہ ہے ۔ فنانشل منیجمنٹ نہ ہونے سے ہم خسارے میں ہیں ۔ایڈمنسٹرٹیو منیجمنٹ نہ ہونے سے یہاں افراتفری ہے ۔ آج آپ کے ساتھ ایک ایسی مثال شیئر کرتے ہیں کہ اس کو پڑھ کر آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ یہ ملک کیوں ترقی نہیں کررہا ۔ ممالک تعلیم میں بہتری سے ترقی کرتے ہیں ۔ پاکستان میں شروع میں اعلیٰ تعلیم کے لیے ادارے نہ ہونے کے برابر تھے ۔قیام پاکستان کے بعد پشاور یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا گیا ۔پھر اسی کی دہائی میں اس یونیورسٹی کے انجینئرنگ کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا اور اس کی ایکٹ میں لکھا گیا کہ یہ یونیورسٹی عارضی طور پر پشاور یونیورسٹی کے کیمپس اور بلڈنگز میں رہے گی اور اس کے لیے علیحدہ کیمپس اور بلڈنگز بنائے جائیں گے ۔چند برس بعد اگر یہ یونیورسٹی وہاں منتقل نہیں ہوتی تو پشاور یونیورسٹی کو بلڈنگز ، ہاسٹل اور دیگر عمارتوں کا کرایہ ادا کرے گی ۔ اس کے بعد ماہ و سال بدلتے رہے ۔یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کو ایک ادارے ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کے نام سے بدل دیا گیاا اور مشرف نے اپنے دور میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کو بے تحاشا مالی وسائل دئیے ۔شروع میں ہائر ایجوکیشن کمیشن نے انجینئرنگ کو بطور فلیگ شپ لیا اور اس وقت کی انجینئرنگ یونیورسٹی کی انتظامیہ نے چھ ارب سے زیادہ کا ایک بڑا پی سی ون بنایا اور صوبائی حکومت نے جلوزئی میں ایک بہت بڑا قطعہ اراضی اس مقصد کے لیے انجینئرنگ یونیورسٹی کو دیا کہ وہ اس پر یونیورسٹی کی عمارت بنائیں اور پشاور یونیورسٹی کی عمارت ان کے حوالے کرکے اس نئے کیمپس میں شفٹ ہوجائیں ۔ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان نے صوبہ کی دیگر یونیورسٹیوں کو میگا پراجیکٹ دینے سے معذرت کرکے انجینئرنگ یونیورسٹی کا یہ بڑا پراجیکٹ منظور کرلیا اور اس پر کام کا آغاز ہوگیا ۔ یہ اپنی نوعیت کا ایچ ای سی کا ابتک کا سب سے بڑا پراجیکٹ ہے ۔ 2009 میں پی سی ون کے مطابق اس پراجیکٹ کو مکمل ہونا تھا ۔ اس پراجیکٹ کو ترجیحی بنیادوں پر فنڈز فراہم کیے گئے ۔ جلوزئی جو کہ نوشہرہ کے پاس ہے وہاں یہ پراجیکٹ مکمل ہوگیا آج اس پراجیکٹ کو مکمل ہوئے پندرہ برس گزر چکے ہیں ۔ اس زمانے کے چھ ارب روپے آج کے حساب سے اٹھائیس ارب
سے زیادہ بنتے ہیں اس لیے کہ اس دور میں ڈالر کی قیمت پاکستانی روپے میں 56روپے تھی۔مگر انجینئرنگ یونیورسٹی اس کیمپس میں شفٹ نہیں ہوئی ۔اس پراجیکٹ کو بعد میں بھی مزید پیسے دئیے گئے ۔جو قوم پندرہ برسوں میں اپنی بنائی ہوئی عمارت میں شفٹ نہیں ہوسکی اس سے ہم یہ توقع کریں گے کہ وہ قوم ترقی کرے گی اور اس دوران چار حکومتیں آئیں مگر ایک حکومت نے بھی یہ ضروری نہیں سمجھا کہ یہ جو اربوں روپے لگا کر یونیورسٹی کا ایک مکمل سٹیٹ اف دی آرٹ کیمپس بنایا گیا ہے اس میں یونیورسٹی کو منتقل کردیں ۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان جو سالانہ اربوں روپے اپنے اوپر خرچ کرتی ہے اور جہاں افسران کی ایک فوج ہے ان کو بھی یہ خیال نہیں آیا کہ یہ ہمارا فلیگ شپ پراجیکٹ تھا ، پلاننگ کمیشن اف پاکستان جس کا کام ہی یہ ہے کہ وہ اپنے دئیے ہوئے پیسوں پر بنے پراجیکٹس کے پی سی فور دیکھے اور یہ یقینی بنائے کہ جو اتنی خطیر رقم دوسری یونیورسٹیوں کا گلہ گھونٹ کر دی گئی تھی اس کا مصرف کیا بنا ۔ یونیورسٹی کے چانسلرز صاحبان جو اس وقت کے گورنرز تھے ان کو بھی کبھی فرصت نہیں ملی کہ وہ اس سلسلے میں باز پرس کریں ، گورنر انسپکشن ٹیم ، یا نیب نے کبھی اس طرف توجہ نہیں دی کہ قوم کا اتنا بڑا سرمایہ لگا ہے اس کا مصرف کیا ہے ۔ اب آتے اس کیمپس میں منتقل نہ ہونے کی وجہ سے پشاور یونیورسٹی کواور اس صوبہ کو کیا نقصان ہوا ۔ پشاور یونیورسٹی جو اس صوبہ کی مادر علمی ہے ۔اس میں پچاس دیگر مضامین جن کی اسوقت ملک اور معاشرے کو ضرورت ہے وہ شروع کیے جاسکتے تھے مگر وہ اس وجہ سے شروع نہیں ہوئے کہ پشاور یونیورسٹی کے پاس ان شعبہ جات کے لیے کلاس رومز نہیں ہے ، لیبارٹریاں نہیں ہیں ، ہاسٹل نہیں ہیں جبکہ پشاور یونیورسٹی کے ہاسٹلوں ، کلاس رومز اور لیبارٹریوں پر انجینئرنگ یونیورسٹی ابھی تک قابض ہے ۔اصولی طور پر انہیں 2009 میں جلوزئی کیمپس میں شفٹ ہوجانا چاہئیے تھا ۔ اس برس پشاور یونیورسٹی نے بیس سے زیادہ نئے پروگرام شروع کیے ہیں جن کے لیے موجودہ سہولیات کم پڑ رہی ہیں ۔ پشاور یونیورسٹی مزید جدید چالیس کے قریب مارکیٹ کی ضرورت والے مضامین میں تعلیم دینے کا منصوبہ رکھتی ہے مگر ناکافی کلاس رومز اور دیگر ضروری عمارتوں اور ہاسٹلوں کی کمی کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کرپارہے ہیں ۔ جن بیس نئے شعبہ جات کا آغاز کیا گیا ہے اس وقت ان شعبہ جات کا پہلا بیچ آیا ہے اگلے تین برسوں ہر شعبہ میں چار چار سمسٹر کے الگ الگ بیچز ہوجائیں گے اور ا ن طلبا کی تعداد جو اسوقت تین ہزار ہے وہ بارہ ہزار تک پہنچ جائیگی ۔دیگر شعبوں میں پہلے ہی سے بیس ہزار طلبا زیر تعلیم ہیں ایسے میںوہ ان طلبا کو کہاں بٹھائیں گے یا ان کو کن ہاسٹلز میں رکھیں گے۔ یہ تبھی ممکن ہوسکتا ہے کہ اگر انجینئرنگ یونیورسٹی اپنے بنائے ہوئے جلوزئی کیمپس منتقل ہوجائے وہاں ان کے لیے وہ تمام سہولیات موجود ہیں جو کسی بھی انجینئرنگ کی یونیورسٹی کودرکا ر ہوتے ہیں ۔ اس وقت پشاور یونیورسٹی کے سینکڑوں اساتذہ گھر نہ ہونے کی بنا پر یونیورسٹی سے باہر رہائش پر مجبور ہیں اور دیگر ملازمین کی بھی یہ حالت ہے ۔انجینئر نگ یونیورسٹی کے شفٹ ہونے سے یہ گھر پشاور یونیورسٹی کے ملازمین کو آلاٹ کردئیے جائیںتوان کا یہ دیرینہ مسئلہ بھی حال ہوجائے گا ۔ اس وقت پشاور یونیورسٹی کیمپس کے تمام معاملات پشاور یونیورسٹی دیکھتی ہے اور سارے خرچے بھی پشاور یونیورسٹی اٹھاتی ہے جبکہ کسی بھی مشترکہ خرچے میں انجینئرنگ یونیورسٹی کوئی حصہ نہیں ڈالتی۔
اب یونیورسٹیاں چونکہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کو جوابدہ ہیں جو صوبہ کے یونیورسٹیوں کے چانسلر ہیں ان کی دبنگ شخصیت اور فیصلہ سازی کی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اس دیرینہ مسئلہ کو حل کرلیں گے ،ان کے ساتھ ہائر ایجوکیشن کے وزیر مینا خان آفریدی جو خود یونیورسٹی سے پڑھے ہیں اور یہاں بطور سٹوڈنٹ لیڈر کے بھی فعال رہے ہیں وہ اس کا یقینا ادارک رکھتے ہوں گے کہ پشاور یونیورسٹی کو کن مسائل کا سامنا ہے اور گزشتہ پندرہ برس پہلے سے تیار شدہ کیمپس میں انجینئرنگ یونیورسٹی کو منتقل کرکے کیسے وہ اپنے اعلیٰ تعلیم کا جو پلان ہے اس کو پایا تکمیل تک پہنچا سکتے ہیں ۔ اس لیے کہ موجودہ صوبائی حکومت کے وزیر اعلیٰ اور ان کی ٹیم نے بارہا اس بات کا اظہار کیا ہے کہ صوبہ کی یونیورسٹیوں کو دنیا کے جدید معیارات اور دنیا میں رائج ہونے والے جدید مضامین تک لے کر جانا ہے ان کی ہدایت پر پشاور یونیورسٹی نے بیس نئے شعبہ جات کا آغاز کیا ہے اور مزید کا اگلے سمسٹر سے آغاز کرے گی ۔ یہ ان کی بہت بڑی کامیابی ہے کہ وہ قوم کے بچوں کو ان مضامین میں تعلیم و تربیت دے رہے جس کو بنیاد بنا کر وہ کل کے نئی دنیا میں ملک و قوم کے لیے کارآمد انسان بنیں گے۔ آپ اندازہ لگائیں کہ دنیا کتنی تیزی کے ساتھ اپنے ترقیاتی منصوبہ مکمل کرتی ہے اور ان سے بروقت فائدہ بھی اٹھاتی ہے اور ہمارے ہاں اربوں روپے لگا ایک ادارے کو مکمل سہولیات مہیاکی گئی ہیں مگر پندرہ برس گزرنے کے بعد بھی وہ اس سے فائدہ نہیں اُٹھا رہے اور کسی بھی حکومت یا ادارے نے ا ن کواس کا پابند نہیں بنایا ۔ یہ اس ملک میں ایک مثال ہے ایسی ہزاروں مثالیں آپ کو اپنے اردگرد اور شعبوں میں نظر آئیں گی ۔ موجودہ حکومت کو چاہئیے کہ وہ نئے منصوبوں کے ساتھ ان مکمل منصوبوں پر بھی مکمل عمل درآمد کروائے جن کو مکمل ہوئے برسوں ہوئے ہیں اور وہ کا رآمد نہیں ہیں ۔ تعلیم کسی بھی ملک کی شہ رگ ہوتی ہے ۔ اس پر سرمایہ کاری کرنی چاہئیے اور جو سرمایہ کاری ہوئی اس کا فائدہ اٹھانا چاہئیے ۔آج سے اپنے آس پاس نظر دوڑائیں آپ کو ہماری ترقی نہ کرنے کے سبب قدم قدم پر نظر آنا شروع ہوجائیں گے۔
