کچھ علاج اس کا بھی۔۔۔!

اصولی طور پرصوبائی حکومت کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا جانا لازمی ہے کہ 150 گرام کی روٹی کی قیمت 15 روپے مقرر کی جارہی ہے (اب تک یہ فیصلہ کیا نہیں گیا) کیونکہ گندم کی کٹائی کے بعد آٹے کی قیمتوں میں مسلسل کمی سامنے آرہی ہے اور کھلی مارکیٹ میں 80 کلو آٹے کی قیمت ساڑھے چھ ہزار روپے تک آپہنچی ہے جبکہ بیس کلو آٹے کی تھیلی کی قیمت میں بھی دو سو روپے سے زائد کی کمی ہو چکی ہے گویا آٹے کی بوری کی قیمت میں لگ بھگ ایک ہزار روپے کی کمی آچکی ہے آٹے کی قیمتوں میں مسلسل کمی کے باعث روٹی کی قیمت بھی بیس روپے سے کم کرکے پندرہ روپے کیا جا رہا ہے شہر میں اس وقت صرف سو گرام سے بھی کم روٹی (پھلکا کہنا مناسب ہو گا) کی قیمت بیس روپے اور جہاں ڈبل روٹی کے نام پر مزید استحصال کرتے ہوئے بجائے دوسو گرام وزن کی روٹی کہیں تیس اور کہیں چالیس روپے میں ڈھڑلے سے فروخت کی جارہی ہے ۔اب صوبائی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ 150 گرام کی روٹی پندرہ روپے میں عوام کو ملنی چاہئے لیکن اس فیصلے پر تاحال کہیں بھی عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے اور شاید ہونے بھی نہ پائے کیونکہ تندور مافیا ہر ایسے اقدام کی مخالفت کے لئے کمربستہ ہوکر اس کے خلاف ڈٹ جاتا ہے اور اب بھی ایسا ہی لگ رہا ہے کہ اگر حکومت نے اس فیصلے کے اطلاق کی کوششوں میں سنجیدگی دکھائی تو تندور مافیا ایک آدھ تو شاید مجبوراً اس پر عملدرآمد کرے مگر اس کے بعد دوبارہ”اپنی خونہ چھوڑتے ہوئے” پرانے طور طریقے استعمال کرتے ہوئے نہ تو وزن بڑھانے پر آمادہ ہو گا نہ ہی قیمت میں کمی پر راضی ‘ حالانکہ یہی طبقہ جب بھی آٹے کی قیمت میں معمولی اضافہ ہوتا ہے تو”از خود نوٹس” کے کلئے کے تحت اپنی مرضی سے روٹی کا وزن کم اور قیمت میں اضافہ کرکے عوام کو لوٹنا شروع کر دیتا ہے ‘ بہرحال ”دا گز دا میدان” کے تحت دیکھتے ہیں کہ حکومت اس مافیا کو نکیل ڈالنے میں کامیاب ہوتی ہے اور نہ صرف روٹی کا وزن ڈیڑھ سو گرام کرانے بلکہ قیمت بھی پندرہ روپے مقرر کراتی ہے ‘ یا پھر اس مافیا کے آگے گھٹنے ٹیکنے اور اسے عوام کی چمڑی اتارنے کی کھلی اجازت دینے پرمجبور ہوتی ہے۔

مزید پڑھیں:  جنوبی کوریا ایشیا کا بے مثال ملک