ایران ‘ طبل جنگ بج رہا ہے

مشرق وسطی کا دوسرا بڑا ملک اسلامی ایران بدترین معاشی اور بین الاقوامی سفارتی تنہائی سے بنرد آزما ہوتے ہوئے اب ایک تباہ کن جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے جہاں اس کو یا تو اپنا تمام کا تمام ایٹمی پروگرام اور اس سے منسلک میزائل ورڈرون سازی کی فوجی صنعتوں کو بند کر کے اپنے آپ کو غزہ اور جنوبی لبنا ن بننے سے بچانا ہے یا پھر ایک جنگ و معاشی پابندیوں سے تباہ حال قوم کے طور پر آنے والے مستقبل کا سامنا کرنا ہوگا ۔ 7 اکتوبر 2023 کے اسرائیل پر فلسطین ۔حماس حملے کے بعد جو بدترین جوابی کارروائی اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے شروع ہوئی ہے اس نے پورے مشرق وسطی کو نہ صرف سیاسی طور پر مکمل تبدیل کر دیا ہے بلکہ شاید کچھ جغرافیائی تبدیلیاں بھی اس کے نقشے میں آنے کو ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ کا ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنائی کو یو اے ای کے خارجہ امور کے وزیر انور گرگاش کی معرفت بھیجا گیا 12 مارچ کا خط ایک الٹی میٹم کے طور پر سامنے آیا ہے۔ 20 مارچ کو خط کے مندرجات منظر عام پر آنے کے بعد گزشتہ اتوار تک ایران کی قیادت امریکی صدر کے براہ راست مذاکرات کے مطالبے پر متفق ہوتی نظر نہیں آتی تھی۔ لیکن گزشتہ پیر کی رات امریکی صدر نے یہ اطلاع امریکن پریس کو دی کہ ایران کے ساتھ براہ راست بات چیت کا آغاز اس ھفتہ کو ہوگا۔ دوسری جانب ایران کے وزیرخارجہ عباس عرقچی نے بتایا ہے کہ ان کی بلواسطہ بات چیت امریکی صدر کے ایلچی اسٹیوز وٹکاف کے ساتھ اومان میں 12اپریل کو اومان کے وزیر خارجہ بدر البشیدی کی معرفت شروع ہوگی ۔صدر ٹرمپ نے دھمکی آ میز خط میں ایران کی قیادت کو متنبہ کیا ہے کہ وہ یا تو اپنے ایٹمی پروگرام کو یکسر ختم کرنے کے لیے براہ راست امریکہ سے مذاکرات کرے یا پھر دو ماہ کا وقت ختم ہونے کے بعد امریکہ( و اسرائیل) کی فوجی کاروائی کا سامنا کریں صدر ٹرمپ کا اسرائیلی آشیرواد کے ساتھ لکھا گیا یہ خط طبل جنگ بجانے کے مترادف خیال کیا جا رہا ہے ۔ امریکہ کی جانب سے بات یہیں رکی نہیں ہے بلکہ بحر ھند وکاہل (انڈوپیسیفک)میں امریکہ کی جانب سے اس ممکنہ فوجی کاروائی کے لیے تیاریاں پورے زور شور سے جاری ہیں امریکی بحری بیڑے کے دو اسٹرایئک گروپ کے جہاز یو ایس ایس ٹرومین اور یو ایس ایس کرل ونسن بحیرہ احمر میں صف آرا ہیں اور ایران کی پہلی دفاعی لائن یعنی حوثی لڑاکوں کے خلاف شمالی یمن میں 12 مارچ سے شدید ترین فضائی فوجی کارروائی کر رہے ہیں۔بحرھند میں امریکہ۔ برطانیہ مشترکہ بحری فوجی اڈہ ڈیگو گارشیہ میں امریکی فضائی قوت کا ایک جدید ترین مظاہرہ ہو رہا ہے جہاں اپنی نوعیت کے جدید اور مہلک ترین ہوائی جہاز میزائل اور دیگر فوجی ساز و سامان چند منٹوں کے نوٹس پر ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کے لیے تیار کھڑا ہے ۔امریکی اداروں کے سربراہان ، کانگریس کی مختلف کمیٹیوں کے ذمہ داران ایران کے خلاف فوجی کاروائی کے حوالے سے دو آرا رکھتے ہیں۔ ایک نقطہ نظر رکھنے والوں کے خیال میں صرف فوجی قوت کا مظاہرہ کافی ہے اس کا استعمال ایران کے خلاف کرنے سے کافی طویل عرصے کے لیے معاملات امریکی
پہنچ سے دور نکل جانے کا امکان ہے اس لیے یہ گروہ معاشی پابندیوں کو مزید سخت سے سخت تر بنانے کے حق میں ہے۔ اس وقت ایران اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے جس کی وجہ اس پر اقتصادی اور معاشی امریکی پابندیاں ہیں جس میں مغرب بھی امریکہ کا معاون ہے۔ دوسری جانب امریکہ میں ایک اسرائیل کے نقطہ نظر سے اتفاق رائے رکھنے والا گروہ بھی موجود ہے جو ایک محدود لیکن انتہائی شدید فضائی فوجی کارروائی فوری طور پر ایران کی ایٹمی تنصیبات کے خلاف کرانا چاہتا ہے تاکہ ایران کو ہر صورت جوہری بم بنا لینے سے روکا جا سکے ۔ بین الاقوامی ایٹمی توانائی کے ادارے اور دیگر اداروں کی رپورٹس کے مطابق ایران معاشی پابندیوں کے باوجود یورینیم کی 60 فیصد افزودگی کے قریب پہنچ چکا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جوہری بم بنانے کی صلاحیت حاصل کر چکا ہے اور اس گریڈ کی یورینیم افزودگی کے ساتھ وہ ایک ایٹمی طاقت کسی وقت بھی بن سکتا ہے۔ صدر ٹرمپ کا 12 مارچ کا ایرانی قیادت کو خط اس گروہ کی سوچ سے متاثر نظرآتا ہے جو ایران کے ایٹم بم ومیزائل پروگرام کے خلاف انتہائی سرعت کے ساتھ شدید فضائی کاروائی کے حق میں ہے۔ ایرانی قیادت کا جواب اب تک بڑا شدید اور بے خوف ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ یا اسرائیل نے کسی بھی قسم کی کوئی فوجی کاروائی ایران میں کی تو اس کے بدترین نتائج نہ صرف ان حملہ آوروں کو بلکہ ان کے حامی گلف ممالک کو بھی بھگتنے ہوں گے۔ ایرانی قیادت نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ان کا ایٹمی پروگرام پر امن ہے لیکن اگر اس کو مجبور کیا گیا تو وہ جوہری بم کسی وقت بھی بنا سکتی ہے اور استعمال بھی کر سکتی ہے۔ ابھی تک مخالفین ایک دوسرے کے اعصاب کی مضبوطی اور طاقت کا جائزہ لے رہے ہیں ۔مختلف بین الاقوامی میڈیا چینلز سی این این، الجزیرہ ، العربیہ، ایرانی میڈیا و پریس کے اندر آنے والے تجزیے صورتحال کو معاشی و فوجی لحاظ سے تول پرکھ کر جو اطلاعات دے رہے ہیں ان سے لگتا ہے کہ اسرائیل کسی بھی صورت میں ایسی صلاحیت نہیں رکھتا کہ وہ ایران کی ایٹمی تنصیبات کو کامیابی کے ساتھ نشانہ بنا سکے اس کے لیے وہ امریکہ کی پشت پر سوار ہو کر حملہ آور ہونا چاہتا ہے اور صدر ٹرمپ اسرائیل کو یہ سواری کرانے پر تیار بیٹھے ہیں یعنی ایران کے خلاف محدود و تندفوجی کاروائی کا امکان 50 فیصد سے زیادہ ہے۔ دوسری جانب ڈپلومیسی کی کامیابی یا ناکامی ہے اگر ایران 2015 کے طرز پر کوئی باضابطہ یقین دہانی ایٹم بم نہ بنانے کی کرا دیتا ہے اور معاشی پابندیوں کو دوبارہ کم کرانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ صورتحال جنگ کو روک سکتی ہے اس کے لیے ایران کو اپنے دوستوں چین اور روس کی مکمل سفارتی سیاسی اخلاقی اور یہاں تک کہ فوجی حمایت کی ضرورت ہے جو اب ایران، روس وچین کی حالیہ میٹنگ کے بعد کچھ واضح ہونا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں حوثی لڑاکوں کی فوجی قوت کو مکمل طور پر غیر موثر بنانے اور بحیرہ احمر کو ان کے تسلط سے نجات دلانے میں اگر امریکیوں کو کامیابی ہو جاتی ہے تو شاید ایران کی جانب ان کے فوجی عزائم میں کچھ کمی آجائے۔ صدر ٹرمپ کے معاشی اقدامات اور ٹیرف کے مسئلے پر جس طرح امریکہ کے اندر اور باقی دنیا میں مظاہرے ہو رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ فی الحال ایران پر معاشی و فوجی دبائو کو آخری حد تک بڑھانے کی کوشش کرے گی لیکن کسی فوجی تنازع میں ملوث ہونے سے اجتناب کرے گی۔ ممکن ہے کہ اس دورا ن ایرانی قیادت اپنے طور پر ایٹمی پروگرام کو کچھ عرصے کے لیے غیر موثر بنا لے۔

مزید پڑھیں:  پشتونوں کے زوال کا سلسلہ کب رُکے گا