ایک جانب جہاں صوبائی حکومت کی جانب سے ٹریفک کے مسائل کے مستقل حل کے لئے ٹھوس اقدامات شروع کرنے کا عندیہ دیا جارہا ہے اور حال ہی میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں اس حوالے سے ٹھوس فیصلے کئے گئے ہیںجن پر عملدرآمد کی صورت میں صوبائی دارالحکومت کے ٹریفک مسائل میںکمی آسکتی ہے اور شہریوں کو تیز رفتار سفر کی سہولت میسر آنے کی امید ہے تاہم دوسری جانب یہ مسئلہ لاینحل صورت اختیار کرتی جارہی ہے کہ حکومت جوں جوں پارکنگ کے مسئلے سے نمٹنے کی دعویدارتو ہوتی ہے لیکن عملی طور پر صورتحال یہ ہے کہ صوبائی دارالحکومت پشاورمیںگاڑیوں کی پارکنگ کے لئے کثیرالمنزلہ عمارتوں اور دیگر مقامات پر مناسب انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے اور خاص طور پرگاڑیوں اورموٹر سائیکلوں کوچوری کرنے کے سدباب کے لئے سرکاری سطح پر بڑے بازاروں وغیرہ میں پارکنگ کے ٹھیکے تقسیم کئے جانے سے بھی عوام کی شکایات دور نہیں ہو رہی ہیں کیونکہ مختلف بازاروں اورعلاقوں میں پارکنگ کے ٹھیکیداروں کی جانب سے جو من مانیاں کی جارہی ہیں ان سے متعلقہ ادارے اورحکام آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں ‘ کیونکہ ٹھیکیداروں کے کارندے عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں اور اخباری خبروں کے مطابق گاڑیوں کو تو ایک جانب رکھئے موٹرسائیکلوں کی پارکنگ کی فیس بھی بغیر کسی وجہ اور جواز کے 50 روپے کردی گئی ہے اور مقررہ فیس سے دوگنے سے بھی زیادہ رقم وصول کی جا رہی ہے جو دیکھا جائے توبھتہ خوری کی ایک اورشکل ہے حالانکہ موٹرسائیکل کی پارکنگ فیس بیس روپے سے زیادہ ہرگز نہیں ہونی چاہئے ‘ اور کوئی تکرارکرے تو متعلقہ کارندے اسے بے عزت کرتے بلکہ مرنے مارنے پرتل جاتے ہیں اس صورتحال کا تدارک کون کرے گا؟جب تک صوبائی دارالحکومت پشاور میں اور خاص طور پر واحد مرکزی سڑک یونیورسٹی روڈ پر سڑک کے کنارے اور عین وسط تک گاڑیاں کھڑی کرنے کے تدارک کے لئے ٹھوس بنیادوں پر اقدامات نہیںکئے جاتے تب تک ٹریفک جام کے مسئلے پر قابو پاناشاید ہی ممکن ہو پائے گا۔یونیورسٹی روڈ پر جب تک گاڑیاں اٹھانے کے انتظامات سمیت ہر تھوڑے فاصلے پر چالان کا اختیار رکھنے کے حامل سخت گیر پولیس افسران کا تقرر نہیں کیا جائے گا اس وقت تک بلا رکاوٹ ٹریفک کی توقع عبث ہو گی۔
