ٹرمپ کی تجارتی جنگ ۔۔۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے تقریباً تمام درآمدی اشیاء پر بھاری محصولات عائد کر کے تجارتی محاذآرائی شروع کرنے کے جواب میں اب چین اور یورپی ممالک کی جانب سے سخت جوابی رد عمل سامنے آیا ہے جبکہ بھارت اور پاکستان کی جانب سے مذاکرات کا راستہ چنا گیا ہے پاکستان کا اعلی سطحی وفد جلد ہی امریکہ کا دورہ کرے گا جو ایک احسن فیصلہ ہے صدر ٹرمپ جس طرح جارحانہ انداز سے تجارتی میدان میں محصولات میں اضافے کے ساتھ سامنے آئے وہ حیران کن ہے لیکن ان کی جانب سے جلد ہی اس عمل کو موخر کر نے کا اعلان بھی جلد ہوا۔ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے وقتی طور پر ایک قدم پیچھے ہٹ کر نرمی کا اشارہ تو دے دیا ہے لیکن چین کی جانب سے ترکی بہ ترکی جواب اور صدر ٹرمپ کی مزید کے جواب میں چین کا مزید سے مزید تر کا رویہ عالمی طور پر معاشی محاذآرائی میں اضافہ کا باعث امر ہے جس کے اثرات سے امریکہ اور چین سمیت شاید ہی کوئی ملک محفوظ رہ پائے گا امریکی اقدامات شرح محصول ایک صدی سے زیادہ کی بلند ترین سطح ہے جس سے اسٹاک مارکیٹوں میں بھونچال اور کساد بازاری توقعات سے کہیں زیادہ ہو گئی ہے قیمتوں میں اضافہ اور مسابقت میں کمی سے خود امریکی صارفین اور کاروبار کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے اور اندرونی طور پر بھی اس پر تنقید ہو رہی ہے جو غیر منصفانہ تجارتی طریقوں کے قابل اعتماد اشارے نہیں امریکی محصولات نے عالمی تجارتی تعلقات کو کشیدہ تر کر دیا ہے جو ممکنہ طور پر بین الاقوامی تجارت اور تعاون کے طویل مدتی نتائج کا باعث بن سکتا ہے اس تجارتی تنازعے کا جلد کوئی حل نکالنے کے لیے عالمی سطح پر کوششوں کی ضرورت ہے بصورت دیگر دنیا اس عفریت کا بری طرح شکار ہو سکتی ہے اقوام عالم کی ذمہ داری بنتی ہے کہ دنیا کو افراط زر اور کساد بازاری کی مشکل سے بچایا جائے۔

مزید پڑھیں:  حافظ صاحب قبلہ کا ارشاد