امت مسلمہ پر ایک تسلسل کے ساتھ طاغوتی قوتوں کی جانب سے ظلم و تعدی کے جو پہاڑ توڑے جاتے رہے ہیں اس کی واحد وجہ تلاش کی جائے تو یہ نکلتا ہے کہ اہل اسلام نے جہاد جیسے عظیم فریضے سے منہ موڑ لیا ہے مسلمان جب تک شمشیر بدست رہے دنیا کی حکمرانی قدرت نے ان کو سونپی رکھی جب جہاد کے مقدس فریضے سے منہ پھیر لیا تو ان کی ابتلا کے دن شروع ہوگئے جن کا اختتام ہی نہیں ہوتاجب تک مسلمانوں کو اس کا عملی ادراک نہیں ہوتا اس وقت تک ان کی حالت کی تبدیلی ناممکن نظر آ تی ہے طاقت ساز وسامان حرب میں مسلمان برتر نہ ہونے کے باوجود فتح یاب ہوتے آ ئے ہیں اب بھی اگر امت مسلمہ ہمت کرے تو کمزور نہیں اہل غزہ پر اسرائیلی مظالم کی صورتحال کسی سے بھی پوشیدہ امر نہیں لیکن اس کے باوجود بطور خاص حکومتی سطح پر جس طرح کی بے حسی نظر آتی ہے اسے دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ ابتلا کے اس دور میں بھی مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں کوتا ہی ہورہی ہے جس پر عوام اور دینی قائدین کی تشویش میں اضافہ فطری امر ہے ۔ ایک کانفرنس میں مفتی اعظم پاکستان مفتی تقی عثمانی نے اسرائیل اور اس کے حامیوں کا مکمل بائیکاٹ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام اسلامی حکومتوں پر جہاد فرض ہوچکا ہے اور مسلم ممالک کی فوجیں اور اسلحہ کس کام کی اگر وہ ان حالات میں بھی مسلمانوں کو اس ظلم وستم سے نجات دلانے کا فریضہ انجام دینے میں ناکام رہیں امر واقع یہ ہے کہ دنیا میں تقریبا ستاون مسلم ممالک ہیں نیز پونے دو ارب مسلمان دنیا میں بستے ہیں لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ مظلوم فلسطینیوں کی داد رسی کے لیے لبیک کہنے والا اور آگے بڑھ کر مدد کرنے والا کوئی نہیں ہے۔فلسطین کے اردگرد مسلم اور عرب ممالک میں روایتی عرب شجاعت اور حمیت نام کی نہیں رہی اور وہ فلسطینیوں کی عملی مدد کے لیے آگے بڑھنے کو تیارہی نہیں ہیں جو بادی النظر میں اسرائیل کی حمایت ہی شمار ہوتی ہے۔ مسلم ممالک کی تنظیم ”او آئی سی”کا وجود تو ہے مگر ناکارہ جو اس وقت بھی مسلمانوں کی سفارتی طور پر بھرپور مدد ہی کے قابل نہیں اس کی اعانت کا سارا اثاثہ چند بے جان اور قوت ایمانی سے عاری قراردادیں ہیں اور بس ۔المیہ یہ ہے کہ ممکنات پر بھی غور نہیں کیا جا رہا اسلامی ممالک معاشی طور پر بائیکاٹ ہی پر اتفاق کریں تو بہت موثر ہوسکتا ہے اگر تمام اسلامی ممالک میں متفقہ طور پر صرف اسرائیلی مصنوعات کا مکمل طور پر استعمال بند کیا جائے تو باطل گھٹنے ٹیک دے مگر ہم یہ بھی کرنے کو تیار نہیں اس ضمن میں کاروبار ی طبقے اور عام صارفین کا کردار بھی کلیدی ہے اور یہ کم سے کم اور آ سان طریقہ بھی ہیاسے اختیار کر نا ہر مسلمان کا کم سے کم فریضہ ہے ۔احتجاج کی ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مسلم ممالک اتفاق رائے سے ان عالمی تنظیموں کی رکنیت سے نکل آئیں یا ان کا بائیکاٹ کریں جو اسرائیل کے مظالم بند کرنے میں جان بوجھ کر لیت ولعل کا مظاہرہ کر رہے ہیں سب سے موثر طریقہ یہ ہے کہ اپنی فعال تنظیم قائم کریں نیز اسلامی کانفرنس کی تنظیم کو موثر بنائیں حادثات وسانحات اور مظالم کے سدباب کے لیے اپنا اجتماعی فنڈ قائم کریں۔ مسلم ممالک اپنے اجتماعی تحقیقی اور ایجاداتی ادارے قائم کر سکتے ہیں۔ بہت کچھ ممکن ہے بشرطیکہ اس پر غور اور اتفاق کیا جائے ۔احادیثِ مبارکہ کی رو سے اہلِ اقتدار اور حکمرانوں کی ذمہ داری عملی اقدامات کرنا ہوتی ہے اور علما ء کی ذمہ داری صدائے احتجاج بلند کرنا اور حکمرانوں اور عوام کو ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرنا ہے۔انہوں نے تو یہ ذمہ داری اعلان جہاد کرکے پوری کردی ہے اب یہ مسلم حکومتوں اور حکمرانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے دائرہ کار میں اقدامات کی ذمہ داری پوری کریں اگر وہ احتراز کرتے ہیں تو ان پر تو ہمارا بس نہیں چلتا پس بہتر ہے کہ ایک دوسرے کو ملامت کرنے کے بجائے عملی اقدامات پر از خود سعی ہو اس کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں جن میں سے سب سے سہل اور مناسب ترین صورت فلسطینی بھائیوں کی مالی مدد ہے یہ بھی جہاد میں شریک ہونے کی ایک عملی صورت ہے مالی وسائل جمع کرکے اہل غزہ تک ان کی ترسیل کا انتظام کیا جائے خالص غذائی اجناس اور بچوں کے لیے دودھ اور دیگر سامانِ ضرورت کا بندوبست بھی ایک صورت ہو سکتی ہے بچوں اور خواتین سمیت ہر عمر کے لوگوں کے لیے ملبوسات کی ترسیل کا انتظام کیاجائے کنٹینروں پر موبائل ہسپتال روانہ کی جائے جن میں میڈیکل وپیرا میڈیکل سٹاف آپریشن تھیٹر ایکسرے وٹیسٹنگ لیبارٹری اور تمام ضروری ادویات شامل ہوں۔ ڈاکٹروں کو رضاکارانہ بنیاد پر اس مہم میں شرکت کی دعوت دی جائے تو وہ اپنی خدمات فراہم کرنے کو اپنے لیے سعادت سمجھیں گے۔اب یہ وقت میدان عمل میں نکلنے کا ہے اور اس وقت ہر کسی کو عملی طور پر جہاد میں شریک ہونے کی پوری کوشش کرنی چاہیے اگر یہ ممکن نہ ہو تو مالی طور پر جہاد میں شریک ہوا جاسکتا ہے قولی اور دعائوں کی صورت میں اہل غزہ سے ہمدردی کی جاسکتی ہے اور بھی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں شرط یہ کہ دل میں اسلام اور مسلمانوں کا دردہو۔
