امریکہ کی یہ خاصیت ہے کہ اس نے وقت کے نبض پر ہر وقت ہاتھ رکھا ہوتا ہے ۔موجودہ دور میں نئی سائنسی اور آئی ٹی کی تبدیلیوں سے بہت ساری گزشتہ ٹیکنالوجیز اور محکمے غیر ضروری ہوتے جارہے ہیں ۔امریکہ دنیا کا پہلا ملک ہے جو ان تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ اپنے نظام کو منسلک بھی کررہا ہے اور پرانے نظاموں سے خود کو آزاد بھی کررہا ہے جبکہ باقی دنیا میں ابھی یہ عمل شروع نہیں ہوا اگرچہ یہ تبدیلیاں وہاں بھی ناگزیر ہوچکی ہیں ۔ اس میں امریکہ کو یہ سہولت حاصل ہے کہ وہاں ایک حکم سے کسی بھی نظام کو بدلا جاسکتا ہے یعنی وہاں عرف عام میں ہائر اینڈ فائر کا سقہ نظام موجود ہے ۔ امریکہ کی نئی انتظامیہ میں ان لوگوں کو شامل کیا گیا ہے جو اس نئے ٹیکنالوجی اور آئی ٹی کے سرخیل مانے جاتے ہیں اور ان کو دنیا پہلے سے جانتی ہے ۔ امریکہ نے اپنے وفاقی محکمہ تعلیم کو ہی ختم کردیا ہے ۔ یہ ادارہ امریکہ میں نظام تعلیم کو دیکھتا تھا اور نظام تعلیم کے لیے وسائل اور معیارات کا تعین کرتا تھا ۔ اس کو مکمل ختم کرنے سے امریکی حکومت کو سالانہ کھربوں ڈالرز کی بچت ہوگی اور وہ پیسے جدید طریقوں سے جدید ذرائع کے ساتھ دی جانے والی تعلیم پر خرچ کیے جائیں گے ۔ ریاستوں میں تعلیم کو دیکھنے کے لیے ان کے اپنے اپنے محکمے ہیں جن کو وفاقی محکمہ تعلیم سے خطیر گرانٹ ملتی تھی ۔ امریکہ کی نئی انتظامیہ کا ماننا ہے کہ امریکہ میں رائج تعلیم اب وقت کا ساتھ نہیں دے رہی اور اس نظام کو کوئی عملی فائدہ نہیں ہے اس لیے کہ نئی امریکی نسل اب مکمل طور پر آئی ٹی اور انٹرنیٹ کے ذریعہ ملنے والی تعلیمی سہولت سے فائدہ اٹھا رہی ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ امریکہ میں سکولوں اور کالجوں میں دی جانے والی تعلیم کو ختم کیا گیا ہے ۔ وہ تعلیم اپنی جگہ برقرار ہے ۔ محکمہ کو اس لیے ختم کیا گیا کہ یہ محکمہ ایک سفید ہاتھی بن گیا تھا۔ یہاں اگر ایک نظر پاکستان پر ڈالی جائے تو یہاں کے سارے محکمے سفید ہاتھی ہیں ان کو جس مقصد کے لیے بنایا گیا تھا یہ وہ کام سرانجام نہیں دیتے اور ان کے خرچے کھربوں روپے میں ہوتے ہیں جس سے معیشت پر بوجھ آتا ہے اور اس بوجھ کو کم کرنے کے لیے حکومت کو قرضے لینے پڑتے ہیں ۔ پاکستان میں بھی تعلیم کے حوالے سے وفاق میں کئے ایک محکمے کام کررہے ہیں جن میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ ملازم ہیں اور ان اداروں کو سالانہ کھربوں روپے دینے پڑتے ہیں حالانکہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں تعلیم صوبوں کا مسئلہ ہے وفاق کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔ ایسا ہی ایک ادارہ ہائر ایجوکیشن پاکستان بھی ہے ہائر ایجوکیشن کا نصف بجٹ خود پر خرچ کرتا ہے اور پورے ملک کی یونیورسٹیوں کو ان کی ضرورت سے نوے فیصد کم پیسے دیتا ہے ۔ اس ادارے کا وجود اٹھارویں ترمیم کے بعد ختم ہوجانا چاہئے تھا ۔ اور اس کو ملنے والے پیسے براہ راست صوبوں کو منتقل ہونے چاہئیں تھے جس سے یونیورسٹیوں کا نظام سہولت کے ساتھ چل سکتا تھا ۔ امریکہ میں ہر اس شعبہ کو اب بند کیا جارہا ہے جو خسارے میں ہے اور ان کی معیشت پر بوجھ ہے اس لیے کہ امریکہ میں اندرونی قرضوں کی شرح ان کی کل جی ڈی پی سے بہت زیادہ ہوگئی ہے اور اس شرح میں کمی لانے کے لیے غیر ضروری اخراجات پر کنٹرول کرنا لازمی ہوگیا تھا ۔ امریکہ میں اس وقت اس کا سب سے بڑا ادارہ یوایس ایڈ بند کردیا گیا ہے ۔ امریکہ کی حکومت خود یہ اعلان کررہی ہے کہ یہ ادارہ بدترین کرپشن اور بدانتظامی کا شکار رہا ہے اور اس نے امریکہ کی ٹیکس دہندہ گان کے کھربوں ڈالر ضائع کیے ہیں ۔ اس ادارے نے پاکستان سمیت دنیا بھر میں مختلف منصوبوں پر کام کیا ہے مگر یہ محکمہ سو روپے کا کام ایک لاکھ میں کرتا تھا ۔اور اب امریکی حکومت کہہ رہی کہ امریکہ کے لوگوں کے ٹیکس کے پیسے اس ادارے کے ذریعہ کرپشن کے نذر ہوتے تھے ۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے درجنوں ایسے پروگرام تھے جن پر اربوں ڈالرز خرچ کیے جاتے تھے اور دنیا کے مختلف ممالک اور اقوام کو فائدہ دیا جاتا ہے وہ تمام کے تمام اس وقت بند کردئیے گئے ہیں ۔ یہاں تک وائس آف امریکہ کی سروس ہی ختم کردی گئی۔ امریکہ نے افغانستان سے واپسی کے بعد وہاں افغانوں کی بحالی نو کے لیے بھی ایک ادارہ بنایا تھا جس کو اربوں ڈالر مل رہے تھے اس کو فوری طور پر ختم کردیا گیا ہے جس سے امریکہ میں افغانستانیوں کو بسانے کا عمل شدید متاثر ہوا ہے اس وقت دو لاکھ سے زیادہ افغانی شہری اس انتظار میں تھے کہ وہ اس محکمے کے ذریعہ امریکہ جائیں گے اور بس جائیں گے ان میں سے زیادہ افراد اس وقت پاکستان میں ہیں اب امریکی امداد ان کو ملنے بند ہوگئی ہے اور یہ سارے افراد بھی پاکستا ن پر بوجھ بن
گئے ہیں ۔ امریکہ کے متعلق مشہور تھا کہ یہ دنیا بھر سے لوگوں کو اپنے ملک میں لاکر وہاں ماہرافراد قوت کی کمی کو پورا کرتا ہے اور اس سے اس کی معیشت چلتی ہے ۔ نئی امریکی انتظامیہ نے اس تصور کو ہی ختم کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے ۔ اب امریکہ صرف ان افرادکو گولڈن ویزے دے رہا ہے جن کے
پاس بہت زیادہ پیسہ ہے امریکہ کے اس نئی پالیسی سے امریکہ میں باہر کے ممالک سے پیسے آجائیں گے اور وہ پیسے امریکہ کے معاشی نظام میں پیسوں کی کمی کو پورا کرنا کا سبب بنیں گے ۔ امریکہ نے اب اپنے ملک سے غیر ضروری لوگوں کو جو ان کے شہری نہیں ہیں ان کو نکالنا شروع کردیا ہے اور اس میں آنے والے دنوں میں شدت آتی جائے گی ۔ امریکہ نے مختلف ممالک جن کے افراد کو امریکہ اپنے لیے فائدہ مند نہیں سمجھتا بلکہ ان کو اپنے لیے مسائل کی وجہ سمجھتاہے۔ان کا مستقل امریکہ میں داخلہ بند کرنے کا بھی آغاز کردیا ہے ۔ امریکہ کا نیا نظام جو تشکیل پارہا ہے وہ خالصتاً مالی استحکام کے حوالے سے ہی تشکیل پار ہا ہے ۔ یہ ایک ایسے نئے دور کا آغاز ہے جس میں امریکہ دنیا کے قابل لوگوں کی جگہ اب مشینی اورمصنوعی ذہانت پرخود کو منتقل کررہا ہے ۔ ایسے میں وہ کینیڈا کو بھی اپنی ایک مزید ریاست بنانے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں ساتھ ہی وہ سمندری گزرگاہوں پر بھی اپنا مکمل قبضہ رکھنا چاہتے ہیں ۔ چونکہ وہ حربی طاقت رکھتے ہیں اور دنیا کی اکانومی بھی ان کی دسترس میں ہے اس لیے بے دھڑک وہ یہ سب کچھ کررہے ہیں ۔ پاکستان جیسا ملک جس میں ستر فیصد لوگ کام ہی نہیں کررہے اس پر حکومت کے غیر ترقیاتی اخراجات اتنے زیادہ ہیں کہ جن کا امریکہ جیسے ملک میں بھی تصور ممکن نہیں ہے وہ بجائے امریکہ کے نقش قدم پر جانے کے حکومت پر مزید افرادی اخراجات کا بوجھ ڈال رہا ہے اور ساتھ ہی اس ملک میں بننے والی اشرافیہ کو دنیا سے قرض لے لے کر عیاشی کروارہا ہے ۔ پاکستان جو دنیا میں سب سے زیادہ امریکی امداد کا متمنی ہوتا تھا اب اسے یہ سہولت میسر نہیں ہے اور ماضی قریب میں بھی شاید میسر نہ ہواس لیے پاکستان کی حکومت کو افغانستانیوں کا بوجھ سر سے اتار پھینکنا چاہئے اور اپنے وسائل خصوصاً زراعت پر توجہ دینی چاہئے اور عالمی مفادات کی جگہ ملکی مفادات کا سوچنا چاہئے ۔اس لیے کہ اب امریکہ بدل رہا ہے تو باقی دنیا کا چلن بھی بدلے گا۔
