اندھوں سے مل کر شور مچایا ہے چار سو

دروغ برگردن راوی ‘ کئی برس پہلے ایک ”کہانی” بہت مشہور تھی ‘ سچ اور جھوٹ کی ذمہ داری ہم پہلے ہی راوی کی گردن پر ڈال چکے ہیں یہ وہ دور تھا جب ریاست سوات میں (تب اسے پاکستان میں ضم نہیں کیا گیا تھا) زمرد کی کانیں دریافت ہوئی تھیں ‘ اس وقت والیٔ سوات میاں گل جہانزیب تھے’ شنید ہے کہ ان کے پاس کسی مغربی ملک سے ایک سرمایہ کار آیا اور اس نے زمرد کی کوالٹی چیک کرنے کے بعد والیٔ سوات کو پیشکش کی کہ اگر زمرد نکالنے اور اسے باہر بھیجنے کا ٹھیکہ دے دیا جائے تو صرف بیس سال بعد وہ سوات کے ہر اس بچے کے لئے جو معاہدے کے اختتام کے آخری دن جنم لے گا ایک جدید ماڈل کی گاڑی مہیا کرے گا جبکہ رائلٹی کے طور پر ریاست سوات کو بھی بے پناہ رقم دے گا۔مگر والیٔ سوات نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا اس کے بعد حالات نے پلٹا کھایا ایوبی آمریت کا خاتمہ ہوا اور جنرل یحییٰ خان نے اقتدارسنبھالتے ہی سوات ‘ دیر اور چترال کی ریاستوں کو پاکستان میں ضم کرکے وہاں کے سابق حکمرانوں کے لئے رائیلٹی مقرر کر دی اور جب ان تینوں ریاستوں میں سول انتظامیہ نے چارج سنبھالا تو اس کے بعد زمرد کی ا ن کانوں کا جو حشر کیا گیا اور دن دیہاڑے”لوگ” زمرد کا ”استحصال” کرتے دیکھے گئے وہ تاریخ ہے دیگر دوریاستوں میں بھی وہاں کے قیمتی ریسورسز کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا وہ داستانیں بھی الگ ہیں ۔ یہ کہانی ‘ واقعہ یا مفروضہ جو بھی آپ سمجھیں اور جس کے بیان کئے جانے کی ذمہ داری ہم نے راوی کی گردن پر ڈال دی ہے یوں یاد آیا کہ ملک کے مختلف حصوں سے معدنی ذخائر کے ملنے کی مستند خبریں سامنے آگئی ہیں یعنی ان کی مصدقہ اطلاعات انگریزی محاورے کے مطابق ”فرام دی ہارسز مائوتھ” سے برآمد ہوئی ہے اور نہ صرف وزیر اعظم شہباز شریف نے کھربوں ڈالر کے ”معدنی” ذخائر سے پاکستان کو قرضوں کے پہاڑ سے نجات دلانے کی بات ببانگ دہل کردی ہے بلکہ آرمی چیف نے بھی تصدیق مزید کرتے ہوئے ان معدنیات خصوصاً سونے ‘ تانبے وغیرہ میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو ہر قسم کے تحفظ کی یقین دہانی کرادی ہے بلکہ نیشنل ریسورسز لمٹیڈ( این آر ایل) کے چیئرمین اور لکی سیمنٹ کے چیف ایگزیکٹو نے چاغی بلوچستان میں بھی سونے اور تانبے کے ذخائر دریافت ہونے کی بات کی ہے ایک شاعر کا خوبصورت شعر ملاحظہ کیجئے ۔
یہ پہاڑوں کا ظرف ہے ‘ ورنہ
کون دیتا ہے دوسری آواز
یہ جو چاغی کے پہاڑوں سے بھی سونا نکلنے کی بات سامنے آئی ہے تو محولہ بالا شعر اس صورتحال پر یوں منطبق ہوتا ہے کہ میاں نواز شریف نے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں جو سات ایٹمی دھماکے کرکے نیوکلیئر پاور ہونے کا اعلان کیا تھا تو ممکن ہے کہ سونے کے یہ ذخائر چاغی کے ان پہاڑوں میں کہیں بہت ہی گہرائی میں موجود تو تھے مگر اب جتنی گہرائی میں مل رہے ہیں (یعنی نسبتاً قریب ہو چکے ہیں) تو یہ انہی ایٹمی دھماکوں کی بدولت ہی ممکن ہوگیا ہو’ اس لئے کہ جب ایٹمی دھماکہ ہوتا ہے تو زمین کا متعلقہ علاقہ تلپٹ ہو کر رہ جاتا ہے اور انہی دھماکوں کی بدولت زمین کے اندر ہونے والی اتھل پتھل نے سونے کے ذخائر کو بہت گہرائی سے نکال کر سطح زمین کے قریب کر دیئے ہوں اور اب اللہ کے فضل و کرم سے یہ کھربوں ڈالر کے معدنی ذخائر پہاڑوں کے اندر سے ”ابلنے” کو تیار ہوں اسی طرح ریکوڈک کے حوالے سے بھی اگرچہ ہونے والے معاہدے کو سپریم کورٹ کے ایک حکم کے تحت روک کر پاکستان کو نقصان سے دو چار کیاگیا جس کی داستانیں اتنی پرانی نہیں کہ اس کی یاد دلانے کے لئے پوری تفصیل میں جایا جائے مگر اب وہاں سے بھی سونے ‘ تانبے وغیرہ کے ذخائر سے بھر پور استفادہ کیا جا سکتا ہے اگرچہ تب ریکوڈک کے حوالے سے کچھ حلقوں کے تحفظات بھی سامنے آئے تھے جن پر علامہ ا قبال کا یہ شعر پوری طرح صادق آتا تھا کہ
دہقان وکشت وجوئے و خیاباں فروختند
قومے فروختند وچہ ارزاں فروختند
مگر اب کی بار صورتحال کی شفافیت واضح ہوکر سامنے آرہی ہے یعنی جن کھربوں ڈالر کے معدنی ذخائر کی دریافت کا اعلان کیا گیا ہے اس حوالے سے کسی(انڈر دی ٹیبل) ڈیل کی گنجائش کو ختم کرکے دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کو نہ صرف کھلی دعوت دی گئی ہے بلکہ ان منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو مکمل تحفظ کی یقین دہانی بھی خود آرمی چیف نے کرا دی ہے تاہم جہاں اس قدر شفافیت کا اہتمام و التزام کیا جارہا ہے تاکہ کسی کو بھی اعتراض کا موقع نہ ملے ‘ وہاں خیبر پختونخوا اسمبلی میں مائنزاینڈ منرلز بل پیش کئے جانے کے بعد اس پر نہ صرف خودتحریک انصاف کے اندر اختلافات سامنے آئے ہیں اور پارٹی کے بعض اہم رہنمائوں کے مابین لفظی جنگ کا آغاز ہو گیا ہے بلکہ اس بل پر صوبے کی قوم پرست جماعتوں نے بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے ‘ ان کا موقف ہے کہ اس قانون سے معدنی وسائل پر وفاقی حکومت کا کنٹرول مضبوط ہونے کی وجہ سے مقامی آبادی کا حق کمزور پڑ جائے گا ان جماعتوں نے واضح کیا ہے کہ اگر صوبائی حکومت نے تحفظات دور نہ کئے تو وہ اس بل کے خلاف عوامی احتجاج کے علاوہ اسمبلی میں بھی شدید مزاحمت کریں گے ۔ تاہم صوبائی حکومت اور خاص طور پر وزیر اعلیٰ کا موقف اس حوالے سے کچھ اور ہے اور وہ مجوزہ بل کو درست قراردے رہے ہیں۔ یوں اس لفظی جنگ کا بالآخر کیا نتیجہ نکلتا ہے اس کے لئے اس پر صوبائی اسمبلی کے اندر بحث کے بعد رائے شماری (جو واضح ہے) کا انتظار تو کرنا پڑے گا کہ بقول الطاف حسین قریشی
اندھوں نے مل کر شور مچایا ہے چارسو
تاسن سکے نہ کوئی کسی دیدہ ور کی بات
ویسے یہ جو شور و غوغا ہے اس کے پیچھے بھی ایک کہانی ہے اور اس کہانی کو بھی ہم دروغ برگردن راوی ہی قرار دیتے ہوئے بیان کرنے کی اجازت چاہیں گے یعنی یہ کہانی کچھ یوں ہے کہ جب تقریباً 13/12سال پہلے صوبے میں حکومت تبدیل ہوئی تو شنید ہے کہ حکمران پارٹی کے ایک مخصوص رہنما کو جو معدنیات کا کاروبار بھی(زور بھی پر ہے) کرتا تھا یہ وہ شخص ہے جسے اے ٹی ایم بھی قرار دیا جاتا تھا اور جس کے ”جہاز” نے اقتدار کے حصول میں پارٹی کے لئے اہم کردار ادا کیا تھا اس شخص کو مبینہ طور پر خیبر پختونخوا کی معدنیات کا ٹھیکہ دے کر پارٹی کو مالی سپورٹ کرنے کا”انعام” دیاگیا اور موصوف نے بھی دل کھول کر ان قیمتی معدنیات پر ہاتھ صاف کیا بعد میں بے چارے کو راندہ درگاہ بنا کر ”قربانی کا بکرا ”بنایا گیا اور پارٹی سے ہی خارج کر دیا گیا مگر تب تک وہ نہ صرف خیبر پختونخوا کی معدنیات سے دولت کے انبار بناکر اپنے اخراجات پورے کر چکا تھا بلکہ چینی مافیا کے ایک رکن کی حیثیت سے بھی اس نے ملک میں چینی کی قیمتوں کو آسمان تک پہنچانے میں بھر پور کردار ادا کیا تھا مگر گرفتاری ‘ مقدمات اور جیل کی سیر کے ہنگام پارٹی نے اس کے ساتھ (توتے کی طرح آنکھیں پھیر کر) جو سلوک روا رکھا اس کی وجہ سے اب وہ اپنی جماعت بنا کر سیاست کرنے پر مجبور ہے بہرحال موصوف نے مبینہ طور پر جس طرح صوبہ خیبر پختونخوا کے معدنی ذخائر سے بھر پور استفادہ کیا اس کو دیکھتے ہوئے اگر مانئز اینڈ منرلز بل پر صوبے کی قوم پرست جماعتیں معترض ہیں تو ان کے تحفظات بہت حد تک درست اور انہیںدور کرنا بھی لازمی ہے گویا یہ جماعتیں بقول ڈاکٹر راحت اندوری کہہ رہی ہیں کہ
خبر ملی ہے کہ سونا نکل رہا ہے وہاں
میں جس زمین پہ ٹھوکر لگا کے لوٹ آیا
وہ چاہتا تھا کہ کاسہ خرید لے میرا
میں اس کے تاج کی قیمت لگا کے لوٹ آیا

مزید پڑھیں:  پشتونوں کے زوال کا سلسلہ کب رُکے گا