پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان آئندہ مالی سال کے بجٹ پر مذاکرات آئندہ ہفتہ شروع ہونے کا امکان ہے، جبکہ بجٹ میں ریٹیلرز ،ہول سیلرز اور مختلف شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، زیادہ پنشن لینے والوں کیلئے ٹیکس استثنیٰ ختم کرنے کی تجویز بھی زیر غور ہے، ٹیکس اصلاحات کے حوالے سے آئی ایم ایف کو اعتماد میں لیا جائیگا جس کے تحت اقتصادی زونز کو ٹیکس چھوٹ نہ دینے ،پٹرول وڈیزل پرکاربن لیوی عاید کرنے اور الیکٹرک گاڑیوں کو مراعات د دینے کی مراعات زیر غور ہیں، ادھر وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ 24 قومی اداروں کی نجکاری کی جائیگی جبکہ ٹیکس کا بوجھ تنخواہ دار طبقے پر زیادہ ہے انہیں ریلیف دیں گے، لاہور چیمبر آف کامرس میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا کہ ہم پبلک سرونٹ ہیں، چیمبرز کے پاس ا کر مسائل سن رہے ہیں، اور انہیں حل بھی کر رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ فنانسنگ کاسٹ، بجلی کی قیمت اور ٹیکسیشن میں بہتری آئے گی تو انڈسٹری چلے گی، وزیراعظم خود معیشت کو لیڈ کر رہے ہیں، آپ جلد نتائج دیکھیں گے ،امر واقعہ یہ ہے کہ ہر سال بجٹ آنے سے پہلے حکومتی سطح پر مختلف چیمبر آف کامرس اور دیگر صنعتی و تجارتی تنظیموں کیساتھ مشاورت کی جاتی ہے اور ان کی تجاویز لیکر ان کو مراعات ،آسانیاں فراہم کرنے کے حوالے سے تجاویز کو بجٹ میں شامل کیا جاتا ہے، اگرچہ جب سے ملک میں اقتصادی صورتحال پر منفی اثرات مرتب ہونا شروع ہوئے ہیں جو سابقہ( حکومت ) کی انتہائی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں افتاد کی صورت سامنے آئے ہیں اور جن کا مقصد ملک کو” ڈیفالٹ ” کرنے کے خطرات سے دوچار کر کے مبینہ طور پر” سری لنکا ” بنانا تھا، اس کے بعد آئی ایم ایف نے جس طرح حکومت کو دباؤ میں لا کر ٹیکس اصلاحات کے نام پر ملک کو مشکلات میں ڈالنا شروع کیا اس سے جان چھڑانے اور ملکی معیشت و اقتصادیات کو صحیح سمت پر گامزن کرنے کیلئے موجودہ حکومت کو سخت مشکلات اور آزمائش سے دوچار ہونا پڑا ہے اور اس حوالے سے ملک کے صنعتی اور تجارتی شعبے بھی بعض اوقات حرف شکایت زبان پر لانے پر مجبور ہوتے رہے ہیں، اب بھی آئی ایم ایف کے ماہرین کا ایک وفد آئندہ سال کے بجٹ کا جائزہ لینے اور” ہدایات” دینے کیلئے پاکستان کا دورہ کرنے کے حوالے سے اطلاعات سامنے ا چکی ہیں تاکہ ملک کے مختلف چیمبر آف کامرس ،صنعتی اور تجارتی حلقوں کی تجاویز کا جائزہ لیکر بجٹ بنانے میں اپنی مشاورت بھی شامل کر کے آئندہ مالی سال کے بجٹ کو حتمی شکل دینے میں اپنا کردار ادا کر سکے۔ اگرچہ وزیر خزانہ نے حکومت کی پالیسی پر اظہار خیال کرتے ہوئے دیگر شعبوں کے بارے میں بھی اظہار خیال کیا ہے تاہم ملک کے خزانے میں اہم کردار ادا کرنیوالے طبقے یعنی تنخواہ داروں کو ٹیکس میں مراعات دینے کیساتھ ساتھ ” زیادہ ” پنشن لینے والوں کی پنشن پر ٹیکس استثنیٰ ختم کرنے کا عندیہ بھی دیکر مہنگائی سے سب سے زیادہ متاثر ہونیوالے اس طبقے کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے، تنخواہ داروں کو ٹیکس مراعات دینے پر اظہار اطمینان تو کیا جا سکتا ہے تاہم جہاں تک پنشنرز کا تعلق ہے یہ ایک ایسا قابل رحم طبقہ ہے جو گزشتہ چند برس سے جتنی پنشن وصول کر کے بھی کچھ نہ کچھ گزر اوقات کرنے میں کامیاب ہو جاتا تھا، مگر جب سے ملکی اقتصادیات ” آزمائش” سے دوچار ہو کر روپے کی قدر میں مسلسل کمی کا شکار ہیں، اگر چہ پنشنرز کیلئے ہر سال 10 فیصد سے 15 فیصد اضافہ بھی کر دیا جاتا ہے مگر پنشن میں اس اضافے کے باوجود تنخواہ دار اور خصوصاً پنشنرز کی قوت خرید بری طرح متاثر ہو چکی ہے، یعنی پانچ چھ سال پہلے کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مسلسل کمی کی بدولت اب ان کو موجودہ (کم قدر والی )پنشن میں عزت کی روٹی نصیب ہوتی ہے نہ یہ دیگر اخراجات ( بلوں میں اضافے ،اشیاء کی مہنگائی وغیرہ) برداشت کرنے کے قابل نہیں رہے، گویا پنشنرز سے پہلے ہی ٹیکس کٹوتی بلاواسطہ طور پر مسلسل کی جا رہی ہے، اس کے بعد آئی ایم ایف کے دباؤ پر اس بے بس طبقے کو اگر ٹیکس سے استثنیٰ بھی واپس لیا جائے تو ان کے زندہ درگور ہونے میں کیا کسر رہ جائے گی؟، تنخواہ دار طبقے کو تو نہ صرف کچھ نہ کچھ اضافہ ان کی تنخواہوں میں مل جاتا ہے جبکہ اس کیساتھ اسی تناسب سے دیگر الاؤنس بھی بڑھ جاتے ہیں ،مگر پنشنرز کو تو بڑی مشکل سے 10 فیصد سالانہ اضافہ کر دیا جاتا ہے جو بڑھتی ہوئی مہنگائی کا مقابلہ کرنے کی سکت ہی نہیں رکھتا،مستزاد یہ کہ یہ اضافہ بھی بعض سرکاری اداروں کے پنشنرز کو ادا کرنے میں تاخیری حربے استعمال کئے جاتے ہیں ،جیسے کہ ریڈیو پاکستان کے پنشنرز کو2023-24 ء کی پنشن میں دو مہینے اور2024-25 کی پنشن میں اضافے کا ایک پیسہ، اسی طرح پی ٹی وی کے پنشنرز کو بھی 2024-25 ء کے پنشن بقایا جات تادم تحریر ادا نہیں کیے گئے اور وفاقی محتسب اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات کے باوجود یہ لوگ پنشن بقایا جات سے محروم ہیں، ایسی صورتحال میں پنشنرز پر ٹیکس عاید کرنے یا ٹیکس سے استثنیٰ ختم کرنے کا کیا جواز ہے؟، دراصل آئی ایم ایف گزشتہ کئی سال سے پنشنرز کو دباؤ میں لانے کی کوششیں کر رہی ہے اور لگتا ہے کہ حکومت بالآخر اس کے دباؤ میں آ چکی ہے جو انصاف کے منافی اقدام ہے۔
