”میری صحت میرا حق”

9 اپریل2025ء کو صحت مند زندگی اور صحت کو پیش کرنے کیلئے عالمی یوم صحت گورنر ہاؤس پشاور میں منایا گیا۔جس میں گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی،پیپلز پارٹی کے رہنما سابق وفاقی وزیر ارباب عالمگیر،ڈاکڑ حسین احمد ہارون صدر پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن،ڈاکڑ جانباز آفریدی،ڈاکڑ اکبر شاہ،ڈاکڑ فخرالدین اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔انہوں نے صحت کے حوالے سے اہم نکات پر روشنی ڈالی۔مجھے بھی جانے کا موقع ملا اور پورا دن گورنر ہاؤس میں انجوائے کرتے ہوئے گزارا۔دنیا بھر میں صحت کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کیلئے ہر سال7 اپریل کو عالمی یوم صحت کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ دن سب سے پہلے1949 میں22 جولائی کو منایا گیا تھا لیکن بعد میں اس تاریخ کو بدل کر7 اپریل کردیا گیا،ٹھیک اسی دن جس دن ڈبلیو ایچ او کو سرکاری طور پر قائم کیا گیا تھا۔اس دن عالمی یوم صحت کے موقع پر ایک بہتر اور صحت مند دنیا کی تعمیر کیلئے دنیا بھر میں کئی پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں۔دنیا بھر میں یہ عام موضوع بحث ہے کہ کئی خطوں میں لوگ بنیادی صحت کی سہولتوں سے محروم ہیں۔لوگ مفروضہ اور دقیانوسی طبی اوہام کے شکار ہیں۔دوسری طرف مہنگا صحت کا نظام بھی لوگوں کو سہولتوں سے استفادہ ہونے سے روکتا ہے۔اس کے علاوہ غیر مصدقہ ڈاکٹر اور غیر تربیت یافتہ عملہ بھی ایک عالمی مسئلہ ہے۔عالمی صحت کی نگہداشت درحقیقت صحت کی دیکھ ریکھ کو عام انسانوں اور ہر کس و ناکس تک پہنچانے کی کوششوں کا نام ہے،جس کیلئے کئی ڈاکٹر ،ہسپتال،غیر سرکاری ادارے اور کئی حکومتیں کوشش کررہے ہیں،کئی ملکوں میں طبی سہولتیں مفت یا بہت کم قیمت پر دستیاب ہیں۔بھارت اور دیگر کئی
ممالک کی مرکزی وزارت صحت نے وقتاً فوقتاً متعدد کتابیں اور مینوئل جاری کئے ہیں جن میں عوامی طبی سہولیات سال درسال میں معیار کو یقینی بنانے کے اقدامات،جملہ کیفیات کی رونمائی جو عرف عام کے سوالات وجوابات کے تحت دئیے جاتے ہیں،اہم کامیابیوں اور اسباق کے بارے میں شش ماہی خبریں،رودادیں،ملک کے صحت کے نظام کے برقی کتابچے،پیش رفت رپورٹیں اور نیز اہم مشاورتی قراطیس عوام کے رْوبرو جاری ہوتے ہیں۔زندگی میں سوائے زندگی کے سب سیکنڈری ہے۔انسان کو دنیا میں سب سے زیادہ اگر کوئی چیز عزیز ہے تو وہ جان ہے۔جسم اور روح کا رشتہ قائم رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ اپنی صحت کا خیال رکھا جائے۔زندگی نام ہی نشیب و فراز کا ہے۔ہماری زندگی میں اچھے برے دن آتے رہتے ہیں،کبھی کبھی ہمارے اردگرد تاریکیاں اتنی بڑھ جاتی ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ شاید اب کبھی سحر کا منہ دیکھنا ہی نصیب نہ ہو،لیکن ایسے میں ایک جگنو بھی نظر آجائے تو پھر سے امید بندھ جاتی ہے اور یہ امید ہمیں جینے کا اور کوشش کرنے کا حوصلہ فراہم کرتی ہے۔خیبر پختونخوا میں سرکاری ہسپتالوں کا برا حال ہے،سرکاری ہسپتال اب پرائیویٹ ہسپتالوں میں تبدیل ہوگئی ہے ،غریب عوام آب در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے۔جب انتظامیہ والوں سے پوچھا جائے تو وہ کہتے ہیں کہ یہ سب تحریک انصاف حکومت کے کارنامے ہے ہم اس میں کچھ نہیں کرسکتے ہیں۔میڈیکل ٹیچنگ انسٹیٹیوشن آرڈیننس کے تحت سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری نہیں بلکہ اس کا مقصد انتظامی امور اور طبی سہولیات کی فراہمی میں اصلاحات لانا ہے۔ میرٹ کا یہ حال ہے صوبے کے تین بڑے ہسپتالوں لیڈی ریڈنگ ،حیات آباد میڈیکل کمپلیکس اور خیبر ٹیچنگ ہسپتال کا نظام ٹھیک نہیں کیا گیا۔حکومت کیا چاہتی ہے کہ لوگ ہسپتالوں میں رلتے رہیں۔پرائیوٹ کلینک میں پچاس پچاس مریضوں سے فیس لیکر چیک اپ کرتا ہے لیکن سرکاری ہسپتالوں میں تنخواہیں اور مراعات لینے کے باوجود پروفیسر ،سپیشلسٹ ڈاکٹر مریضوں کا چیک اپ نہیں کرتے، پرائیویٹ کلینکس میں ڈاکٹر مریضوں سے صرف فیس وصول نہیں کرتے بلکہ مختلف ٹیسٹوں اور ادویات کی مد میں بھی کمیشن وصول کرتے ہیں۔ڈاکڑ ہسپتالوں میں مریضوں کا معائنہ نہیں کرتے بلکہ آپنے پرائیویٹ کلینکس میں مریضوں کو آنے پر مجبور کرتے ہیں۔امن وامان صورت حال کے بعد صوبے میں صحت کی سہولیات کی فراہمی میں پیدا ہونیوالے مسائل بھی عوام کیلئے مشکلات کا باعث بن رہے ہیں۔پاکستان میں ہر روز ہزاروں افراد بیماریوں اور حادثات کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔پرائیویٹ ہسپتالوں کی بھی صورت حال کچھ زیادہ اچھی نہیں،وہاں بھی روزانہ سینکڑوں افراد مرجاتے ہیں۔آج کل ڈاکٹر اور مریض کا
رشتہ پہلے کی طرح محسن اور ممنون کا نہیں بلکہ ایک بکرے اور قصائی کا ہے۔سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکڑ سے لیکر اردلی تک مریضوں کے ساتھ توہین آمیز سلوک روا رکھتے ہیں۔ڈاکڑ کی فیس جو کہ آج کل ایک ہزار سے دو ہزار تک ہے،اتنی بڑی بلڈنگ ہے،لفٹ اور دیگر بہت سی سہولیات ہیں،کیا ہوا اگر آپ نے ان کا استعمال نہیں کیا مگر چارج تو دینا ہی پڑے گا نا۔یہاں روز روز لمبی لمبی میٹنگ صحت کے مسائل پر ہوتی رہتی ہیں۔یہاں حکومت کی ترجیحات میں صرف اور صرف میڑو بس اور اورنج ٹرین ہے،اپ کو یہ پتہ نہیں جس کا نوجوان بھائی، بیٹا، والد، والدہ، بہن،ماں وینٹی لیٹر نہ ملنے سے مرجائے وہ ساری عمر اس غم کو نہیں بھول پائے گا۔خدارا ایک آڈٹ اس پر کرائیں کہ ایک سال میں کتنے افراد سرکاری ہسپتالوں میں وینٹی لیٹر نہ ملنے پر مرجاتے ہیں۔ابھی تو میں نے یہ بات نہیں کہی کہ ادویات نہ ملنے پر، ڈاکٹروں کی غفلت سے ،غلط علاج سے ،بروقت طبی امداد نہ ملنے پر ،نرسوں کی غفلت سے ،غربت کے ہاتھوں روزانہ کتنے مریض اور زخمی مرجاتے ہیں۔گورنر صاحب آپ بھیس بدل کر صرف ایک دفعہ ہماری درخواست پر کسی سرکاری ہسپتال میں مریض بن کر جاکر تو دیکھیں۔پشاور کے تینوں بڑے ہسپتالوں میں جب انتہائی نگہداشت وارڈز میں بیڈز فل ہوگئے ہیں تو مریض کہاں جائیں گے؟ اوسط آمدن کے لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستان میں بلا واسطہ اور بالواسطہ ٹیکسوں کی شرح کوئی ایسی کم بھی نہیں ،لیکن اس کے بدلے میں ریاست کی طرف سے شہریوں کو میسر سہولیات کا معیار کیا ہے؟ یہ ہم سب جانتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  رہنے دو ابھی ساغر و مین ا مرے آگے