خیبر پختونخوا مائنزاینڈ منرلزبل 2025 اور قومی اسمبلی سے کینالز کی تعمیر پر قانون سازی کے ساتھ ساتھ بلوچستان اسمبلی سے اول الذکر بل کی منظوری کے بعد اس حوالے سے سیاسی جماعتوں کی جانب سے آسمان سر پر اٹھانے کا رویہ سمجھ سے بالاتر ہے یہی کچھ قومی اسمبلی و سینیٹ میں” توسیع ملازمت” بارے قانون سازی کے موقع پر بھی کیا گیاجسے اگر من حیث المجموع سیاسی جماعتوں کی منافقت اور دوعملی قرار دیا جائے تو غلط نہ ہو گا حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اس قدر اداکاری ہوتی ہے کہ سیاسی جماعتیں ایک جانب جہاں ”سر تسلیم خم سرکار”کا رویہ اختیار کرتی ہیں اور ایوان میں منظوری کے عمل میں شامل ہوتی ہیں یہی باہر آکر مخالفت کا لبادہ اوڑھ لیتی ہیں پھر”لالی پاپ”ملنے پر گنیاں منہ میں ڈال کر خاموش ہوجاتی ہیں ذاتی مفاد وابستہ ہو تو دوسرے صوبے سے حاصل نشست بھی قبول کرنے پر ذرا تامل نہیں اور انگلی کٹا کر شہیدوں میں نام لکھنے پر بھی اصرار آخر اس دوعملی کو کیا نام دیا جائے کہ ایک ہی جماعت کی صوبہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں پالیسیوں اور فیصلے میں یکسانیت نہیں قیمتی معدنیات کے تحفظ اور صوبے کے مفادات کے تحفظ کرنے والوں کو خراج تحسین لیکن کوئی واضح لائحہ عمل بھی تو اختیارہونا چاہئے ایک جانب حمایت دوسری جانب مخالفت اور پھر اپنے اراکین کے فیصلے کو ان کا ذاتی قرار دے کر جماعتی طور پر بری الذمہ مگر نظم و ضبط اور پالیسی کی خلاف ورزی پر کوئی تادیبی کارروائی نہیں آخر اس سب کو عوام کیا سمجھیں۔ معدنیات بل اور قانون سازی کی حمایت و مخالفت سے قطع نظر اگر جائزہ لیاجائے تو اس سے زیادہ اہمیت کا حامل معاملہ ان قدرتی وسائل سے حقیقی معنوں میں استفادے کے وہ اقدامات ہیں جس پر کسی کی توجہ نہیں ہمارے ہاں کا سنگ مر مر لندن میں رئیس ہی خرید سکتے ہیں مگر اسے بھی ہم خام حالت میں ہی برآمد کرتے ہیں چاول پاکستان کا ہوتا ہے اور برانڈ انڈیا بناتا ہے اور تو اور قدرتی نمک بین الاقوامی منڈی میں کس مول بکتا ہے مگر ہم اس کی بھی ڈھنگ سے مارکیٹنگ نہیں کر سکتے بلاشبہ پاکستان معدنی وسائل سے مالا مال ملک ہے مگر اس کی خام حالات میں فروخت سے ملک کو کوئی خاص فائدہ ملنے والا نہیں ان وسائل کو نکالنے سے لے کر بین الاقوامی مارکیٹ میں فروخت کرنے تک کے جو لوازمات ہوتے ہیں کاش ان پر توجہ دی جائے اور اگر ایسا ہوسکے تو پھر پاکستان کا قرض بھی اترسکتا ہے اور ملک بھی ترقی کی راہ پر گامزن بھی ہوسکتا ہے اور اگر اس کی سکت و قابلیت نہیں رکھتے تو پھر سمجھوتہ اور بڑی بین الاقوامی کمپنیوں کی شراکت داری ناگزیر ہے ان کی شرائط کا آئی پی پیز کی طرح ہونا اور اسے قبول کرنا بعید نہیں مگر اس اصل مسئلے کی طرف کوئی توجہ نہیں اور نہ ہی اس پر سیاسی جماعتوں کی طرف سے تجاویز اور مطالبات کئے جاتے ہیں عملی طور پر اگر ایوانوں میں اس کی مخلصانہ مخالفت بھی ہو تو بھی اسے درمندی گردانا جائے مگر وہاں بھی تقریریں کچھ اور عمل کچھ آخر اس ملک اور اس کے عوام کے ساتھ ریاستی بیورو کریسی اور سیاسی ہر سطح پر یہ کھلواڑ کیوں اور کب تک؟ جب تک ہم من حیث القوم اپنے قومی مفادات اور وسائل سے کماحقہ استفادے کے لئے شعوری طور پر سنجیدگی اختیار نہیں کریں گے اور قوم کو اس طرح ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر سیاسی دکانیں چمکانے اور حصول مفادات کا سلسلہ جاری رہے گا ملک میں جس بھی سیاسی جماعت کی حکومت آئے گی حالات جوں کے توں ہی رہیں گے اگر کہا جائے کہ موجودہ نظام میں ملکی مسائل کا حل ہی نہیں تو بھی خلاف واقعہ بات نہ ہوگی نظام کی تبدیلی مشکل کام ہے تو کم از کم موجودہ نظام ہی میں رہ کر دیانتداری اپنانے کا فیصلہ کیا جائے دیانتدارانہ رائے قائم کیا جائے اور دیانتدارانہ سیاسی و ریاستی کردار کا مظاہرہ کیا جائے تو بھی مشکلات سے نکلنے کی راہ نکل سکتی ہے بصورت دیگرانحطاط درانحطاط ہی سے خدانخواستہ دوچار ہونے کا یہ سلسلہ مزید طول پکڑ سکتا ہے خدارا قوم کو مخمصے کا شکار نہ بنایا جائے اور ایک واضح و قومی مفاد کی ایسی پالیسی اختیار کی جائے جو حقیقی معنوں میں ملک کے 25 کروڑ عوام کے مفاد میں ہو اشرافیہ کے نہیں۔ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ انصاف اور ترقی کے تقاضوں کو پورا کئے بغیر کسی بھی معاملے میں اتفاق رائے پیدا نہیں کیا جاسکتا خیبر پختونخوا کے طول وعرض میں قدرتی وسائل سے حقیقی استفادے کے لئے پالیسیوں میں تبدیلی کے ساتھ صوبے کے عوام کے حق کو اولاً تسلیم دوم حقوق اور حصے کی ادائیگی میں اب مزید لیت و لعل اور ناانصافی کا ازالہ ہونا چاہئے اتفاق رائے کا یہی بہتر راستہ ہے جسے اختیار کرنے کے لئے صوبے کی حکومتی اور سیاسی ہر سطح پر متفقہ جدوجہدسبھی کی ذمہ داری ہے صرف شوروغوغا سے کچھ نہ ہو گا۔
