پنشنروںپرستم مت ڈھائیں

حکومت کی پالیسیاں ایک تسلسل کے ساتھ اب مرے کو مارے شا مدار کی عین تشریح و مصداق بنتی جارہی ہیں بجائے اس کے قابل ٹیکس شعبوں میں ٹیکس نیٹ وسیع کرکے وصولی یقینی بنانے کے اقدامات پر توجہ دی جائے سہل وصولی کے حامل شعبوں ہی کو نچوڑنے کے طریقے تلاش کئے جاتے ہیںبجلی بلوں میں ٹی وی فیس کی وصولی اور مختلف محصولات کی جب مزید گجائش نہیں رہی تو حکومت ایک اور کمزور طبقے پر بوجھ ڈالنے کی تیاری میں ہے اخباری اطلاعات کے مطابق بجٹ خسارہ اور آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لئے وفاقی حکومت کی جانب سے سرکاری ملازمین کی پنشن پر ٹیکس استثنیٰ ختم کرنے کے تجویز سے تمام سرکاری و پرائیویٹ پنشنرز کی پنشن پر 5 سے 35 فیصد تک ٹیکس عائد کیا جائے گا جو ان کی سالانہ آمدنی کے لحاظ سے طے ہوگا۔ ذرائع کے مطابق 5 لاکھ روپے سالانہ تک پنشن پر5فیصد ٹیکس،5لاکھ سے10لاکھ روپے سالانہ پنشن پر10فیصد ٹیکس،10 لاکھ سے 20 لاکھ روپے سالانہ پنشن پر20فیصد ٹیکس،20 لاکھ سے 30 لاکھ روپے سالانہ پنشن پر 30فیصد ٹیکس اور30 لاکھ روپے سے زائد سالانہ پنشن پر 35 فیصد ٹیکس لاگو ہوسکتا ہے معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق حکومت کو اعلیٰ آمدنی والے پنشنرز پر زیادہ ٹیکس عائد کرنے جبکہ کم آمدنی والوں کو مکمل استثنیٰ دینے کی ضرورت تھی کیونکہ اس مجوزہ نظام میں چھوٹے پنشنرز کو بھی نقصان ہوگا ذرائع نے بتایا کہ ملک بھر میں 20 لاکھ سے زائد سرکاری و پرائیویٹ پنشنرز ہیں اس نئے ٹیکس نظام سے حکومت کو 50 ارب روپے سالانہ اضافی آمدنی حاصل ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔سالانہ بیس سے تیس لاکھ اور زائد پنشن لینے والوں پر ٹیکس کے نفاذ کی ا گر گنجائش ہو بھی تو اس سے کم پنشن لینے والوں کو آخری عمر میں نچوڑنا کہاں کا انصاف ہوگا اس عمر میں تو حکومت کو ضعیفوں کا خیال رکھنا چاہئے اگر حکومت ایسا نہیں کر سکتے تو کم از کم ان پر مزید بوجھ تو نہ ڈالا جائے ۔

مزید پڑھیں:  ایک اور گیم چینجر ایک او رسراب؟