کیا ٹیرف امریکی معیشت کو بچا پائے گا

امریکہ دنیا کا سب سے بڑا خریدار اور سب سے بڑا فروخت کنندہ ہے ۔امریکہ دنیا سے خریداری کرتا ہے اور دنیا کو ہر قسم کا سامان اور خدمات فروخت کرتا ہے ۔ اس طرح امریکہ کا دنیا کی تجارت پر ہمیشہ کنٹرول رہا ہے ۔ امریکہ کا یورپ کے ساتھ تجارت کا حجم اتنا بڑا ہے کہ اگر یہ تجارت رُک گئی تو دنیا ایک بدترین معاشی بحران کا شکار ہوجائے گی ۔ حالیہ دنوں میں امریکہ نے ان تمام ممالک پر اضافی ٹیرف عائد کیا جو امریکہ کے ساتھ تجارت کرتے ہیں ۔ دنیا کے تمام ممالک امریکی مصنوعات پر اپنے اپنے ممالک میں ٹیرف لگاتے ہیں جس سے اشیاء کی قیمت بھی بڑھ جاتی ہے اور وہ ممالک اس سے مالی فائدہ بھی اُٹھاتے ہیں ۔ امریکہ نے جو ٹیرف کی فہرست جاری کی ہے اس کے مطابق دیگر ممالک امریکہ مصنوعات و خدمات پر جو ٹیرف وصول کرتے ہیں امریکہ نے جواباً ان ممالک سے درآمدی اشیاء پر اس کا پچاس فیصد ٹیرف عائد کردیا ہے یعنی پاکستان امریکی مصنوعات پر 58 فیصد ٹیرف لگاتا ہے تو جواباً اب امریکہ نے پاکستانی مصنوعات و خدمات پر 29فیصد ٹیرف لگا دیا ہے ۔یہ بظاہر بہت سادہ سا ایک معاملہ لگتا ہے مگر اس کے اثرات تباہ کُن ہوں گے اس لیے کہ یہ سارا اضافی بوجھ عام صارف کو برداشت کرنا پڑے گا ۔ اس سے امریکہ کو ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ وہ اپنے انڈسٹری کو فروغ دے اور بیرون ملک سے درآمد میں خاطر خواہ کمی واقع ہوگی اور دوسری طرف وہ سرمایہ دار جو امریکہ سے باہر جاکر سرمایہ کاری کررہے تھے یا دوسرے ممالک کے سرمایہ کار امریکہ میں سرمایہ کاری شروع کردیں گے اس لیے کہ امریکہ میں پیداواری سلسلوں پر کوئی ٹیرف نہیں ہوگایوں امریکہ کی گرتی ہوئی معیشت کو مضبوط کیا جاسکے گا ۔ مگر امریکہ میں اسٹاک ایکسچینج اس سے بُری طرح متاثر ہوں گے امریکہ کی شیئر منڈی میں بہت مندی آجائے گی اور اس سے پوری دنیا میں ریسیشن کا آغاز ہوگا اور دنیا بھر میں مہنگائی کی ایک ایسی لہر آئے گی جو بہت ساری معیشتوں کو گھٹنوں پر لے آئے گی ۔ اس وقت دنیا کو برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک چین ہے جو ان امریکی پالیسیوں سے بُری طرح متاثر ہوگا ۔ یورپ اور دیگر دنیا کے ممالک بھی اس کی زد میں آئیں گی ۔ کینیڈا اور میکسیکو اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے اس لیے کہ یہ دو ممالک امریکہ کی تجارتی منڈی کی وجہ سے اپنا ملک چلا رہے ہوتے ہیں ۔ پاکستان پر بھی اس کے اثرات پڑیں گے لیکن زیادہ نقصان انڈیا ، ویتنام اور بنگلہ دیش کو اٹھانا پڑے گا اس لیے کہ ان ممالک کے امریکہ کے ساتھ تجارت کا حجم کافی بڑا ہے ۔ ویتنام امریکہ کو بہت زیادہ مقدار میں مختلف مصنوعات برآمد کرتا ہے اور اس کی معیشت کا دار و مدار بھی انہیں برآمدات پر ہے ۔دنیا چونکہ ایک گلو بل ویلج ہے اس لیے امریکہ جیسے بڑے اور طاقتور ملک کی پالیسیوں سے دنیا متاثر ہوتی رہتی ہے ۔ٹیرف کے اس جھگڑے میں امریکہ کے لوگ براہ راست متاثر ہوں گے اس لیے کہ اضافی ٹیرف کا بوجھ ان کو ہی اٹھانا پڑے گا ۔ امریکہ یہ سب کچھ جان بوجھ کر رہا ہے اس لیے کہ امریکہ گزشتہ دو دہائیوں سے مسلسل دنیا کی دیگر منڈیوں پر انحصار بڑھاتا جارہا تھا جس سے امریکہ کی اپنے انڈسٹری اور صنعتیں غیر فعال ہورہی تھیں اور امریکی سرمایہ کار بھی امریکہ میںسرمایہ کاری کی جگہ چین اور دیگر ممالک میں سرمایہ کاری کو ترجیح دے رہے تھے اس کا براہ راست اثر جاب مارکیٹ پر پڑرہا تھا اور امریکہ میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہورہا تھا اور امریکی انڈسٹری کو سنبھالا دینے کے لیے مقررہ حد سے زیادہ قرضوں کا حصول لازمی ہوگیا تھا جس کے نتیجے میں امریکہ کی معیشت شدید دباؤ کا شکار ہوگئی تھی اور کئی دفعہ امریکہ کو اپنے
معیشت بچانے کے لیے بیل آوٹ پیکچز دینے پڑے ۔ٹرمپ کے اس حالیہ غیر معمولی اقدام سے شروع شروع میں امریکہ میں شدید کسادی بازاری آئے گی مگر ایک برس بعد اس سے امریکہ کی ساری انڈسٹری اسی اور نوے کی دہائی کی طرح دوبارہ فعال ہوجائے گی اور امریکی مصنوعات پھر سے دنیا بھر میں فروخت ہونا شروع ہوں گے۔امریکہ کے نظام کو سمجھنے کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ امریکہ کا نظام امریکہ میں پیسے کی گردش سے ترقی پاتا ہے اور پیسے کی گردش کے لیے ضروری ہے کہ امریکہ میں صنعتیں مسلسل کام کریں اور مارکیٹ میں ان صنعتوں سے حاصل ہونے والی اشیاء کی مانگ برقرار رہے اور امریکی برآمدات امریکہ سے ہی ہوں جس سے عام امریکی کو روزگار ملے گا اور امریکی معیشت پر دباؤ کم ہوتا جائے گا ۔ امریکہ اس وقت تین ٹریلین سے زیادہ کی درآمد کرتا ہے برآمدات کی صورت میں امریکہ کو صرف 1.86ٹریلین ڈالرز ملتے ہیں ڈیڑھ ٹریلین کا یہ گیپ مسلسل بڑھ رہا ہے اور یہ صرف وہ اعداو شمار ہیں جن کا اندراج امریکہ کی مختلف سٹاک ایکسچینج کے ڈیٹا سے حاصل کیے گئے ہیں اور اس کا مکمل حجم معلوم کرنا ہو تو یہ شاید اس سے کہیں زیادہ رقم امریکہ سالانہ دوسرے ممالک کے انڈسٹریز کو دیتا ہے ۔ جبکہ اس کے مقابلے میں امریکی برآمدات میں مسلسل کمی واقعی ہورہی ہے ۔ یہ تجارتی خسارہ امریکہ کو معاشی طور پر مسلسل کمزور کررہا تھا ۔ٹرمپ نے اس مسئلہ کو غیر روایتی طریقہ سے حل کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اب امریکہ کی مارکیٹوں میں غیر ملکی اشیاء کی قیمت بہت زیادہ بڑھ
جائے گی تو امریکیوں کو مجبوراً اپنے ملکی پروڈاکٹس پر انحصار کرنا پڑے گا اور یہی طلب امریکہ کی کمزور ہوتی معیشت کو مضبوط کرنے کا سبب بنے گا ۔ ویتنام ، بنگلہ دیش ، تھائی لینڈ ، بھارت اور دیگر ممالک میں کروڑوں لوگ ان انڈسٹریز سے وابستہ ہیں جن کا مال امریکہ بھیجا جاتا ہے ٹیرف عائد کیے جانے کے بعد ان میں سے بہت سارے لوگو ں کا روزگار ختم ہوجائے گا اور وہ سرمایہ جو ان غریب ممالک کو جارہا تھا وہ کم ہوجائے گا جس سے ان ممالک میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوگا اور ان کا زرمبادلہ نصف سے بھی کم رہ جائے گا جس سے ان خطوں میں انسانی زندگی مشکلات سے دوچار ہوجائے گی ۔ یہ جنگ اصل میں چین اور امریکہ کی اقتصادی جنگ ہے مگر امریکہ اپنا نقصان صرف چین پر پابندیاں لگا کر پورا نہیں کرسکتا اس لیے کہ چین باقی دنیا کے ساتھ اپنی تجارت جاری رکھے گا ۔ یہ امریکہ کا ابتدائی وار ہے اس کے بعد وہ ان ممالک کو مجبور کرے گا کہ وہ امریکی کمپنیوں کی اشیاء خریدیں ورنہ امریکہ ان سے کچھ نہیں خریدے گا جس کے جواب میں وہ مجبوراً ٰایسا کرنے پر مجبور ہوجائیں گے ۔اور اگر امریکہ نہر پانامہ کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرتا ہے اور نہر سویز پر بھی اپنی بالادستی برقرار رکھتا ہے تو وہ چین کو بہت زیادہ مشکلات سے دوچار کرسکتا ہے ۔ یورپی یونین کا انحصار امریکہ پر بہت زیادہ ہے اس لیے کہ امریکہ کے بغیر وہ خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں اور امریکہ اس کا مسلسل فائدہ اٹھا رہا ہے دوسری طرف ایشیا کے دوسر ے بڑے ممالک جیسے جاپان ، انڈونیشیا ، جنوبی کوریا ، ملائیشیاوغیرہ کا انحصار بھی امریکہ کو کی جانے والی برآمدات پر ہے اگر امریکہ ان برآمدات میں سے نصف کو بھی روک لیتا ہے اور اپنی پیداوار صلاحیت کو بیس فیصد بڑھا لیتا ہے تو اس کے تمام اہداف حاصل ہوجائیں گے ۔ یہ ٹیرف تو اشیاء پر ہے ابھی خدمات پر بھی ایسا ہی ایک حملہ ٹرمپ کرے گا جس کا نتیجہ اس سے زیادہ بھیانک ہوگا ۔ پاکستان جو آبادی اور رقبے کے لحاظ سے ایک بڑا ملک ہے وہ فائدے اور خسارے کے اس بحث میں کہیں نہیں ہے لیکن ان ٹیرف کے نتیجے میں پاکستان کو بھی بہت زیادہ مشکلات ہوں گی۔

مزید پڑھیں:  معمولی سی غفلت، عمر بھر کی معذوری