عالمی سہوکاروں میں گھری معیشت

ملک کی معاشی حالت کے پیش نظر قرض کے حصول کی مجبوری سے انکار کی گنجائش نہیں دنیا بھر کا نظام معیشت ہی سودی معیشت اور قرضوں پہ چل رہا ہے لیکن جو بات تکلیف دہ ہے وہ یہ کہ ہمارے ہر دور کے حکمران عالمی سہوکاروں سے حصول قرض کو حکومتی کامیابی اور کارنامہ کے طور پر پیش کرتے آئے ہیں جس سے موجودہ حکمران بھی مستثنیٰ نہیں بلکہ ان کو تو حصول قرض میں کامیابی یا پیشرفت بھی سیاسی مخالفین کو زچ کرنے کے موقع کے طور پر دکھنے لگا ہے آئی ایم ایف سے معاہدے کو حکمران اور ذرائع ابلاغ کا ایک حصہ اس طرح پیش کر رہے ہیں جیسے یہ مالی استحکام اور اقتصادی بحالی کی جانب کوئی بڑا کامیاب قدم ہو اور کوئی ایسا مشکل سنگ میل جسے حکمرانوں نے عبور کر لیا ہو حصول قرض درحقیقت مزید گھٹنوں گھٹنوں دھنس جانے کے مترادف ہے اور ہمارے تو گھٹنے نہیں بلکہ پورا جثہ قرضوں میں دھنس چکا ہے اور نکلنے کی بھی کوئی راہ نظر نہیں آتی پاکستان کے مالیاتی فیصلے استعماری اداروں کے اشاروں پر ہوتے ہیں جس میں عوام اور ملک کے لیے خیر کا پہلو تلاش کرنا ناممکن کام ہے یہی ادارے ملکی معاشی پالیسیوں اور محصولات کا نظام طے کرتے ہیں ایسے میں ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ ہماری معیشت و اقتصاد عالمی اقتصادی اور مالیات کی نظام کے تابع رہے اور بعینہ ایسا ہی ہو رہا ہے اور ہوتا آیا ہے سچ ہے کہ گداگروں کی واقعی کوئی مرضی نہیں ہوتی ہمارے محصولات کا نظام کمزور اور غیر حقیقت پسندانہ ہے محصولات کی وصولی کے ادارے اور نظام بدعنوانی اور ملی بھگت کی لعنت سے پاک نہیں یہ بھی پریشانی کی بات ہے کہ پاکستان کا ٹیکس بہ نسبت مجموعی قومی پیداوار(جی ڈی پی)تناسب9سے 10 فیصد ہے، جبکہ فی کس آمدنی صرف1500ڈالر ہے۔ نمایاں طور پر کم ہے۔ ٹیکسوں کے ذریعے جی ڈی پی کا ہدف بڑھانے کا مطلب پہلے سے مفلس عوام پر مزید بوجھ ڈالنا ہے، جبکہ اس سے فائدہ صرف مالیاتی اشرافیہ کو پہنچتا ہے۔ آئی ایم ایف کی مالیاتی پالیسیاں پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنے کے بجائے اس کی مالی دستیابی (لیکویڈیٹی) کو قرضوں کی ادائیگی کے لیے یقینی بنانے پر مرکوز ہیں، جس کا براہ راست فائدہ مقامی مالیاتی اشرافیہ اور غیر ملکی قرض دہندگان کو ہوتا ہے۔ یہ پالیسیاں ملک کی دولت نچوڑ کر اسے مسلسل معاشی کمزوری اور بدحالی کی دلدل میں دھکیل رہی ہیں۔تاریخی طور پر، پاکستان کی معیشت ریاست کے زیر قیادت تھی، جہاں مالیاتی پالیسیوں، قرضوں کی تقسیم اور صنعتی ترقی کی دیکھ بھال کی جاتی تھی۔ تاہم، نجکاری، سٹیٹ بینک کی عملی آزادی، افراط زر کے ہدف کی پالیسیوں اور نجی شعبے کی قیادت میں سرمایہ کاری نے ریاستی کنٹرول کو کمزور کر دیا ہے۔ آج اقتصادی وسائل چند ہاتھوں میں ہیں، جس سے عدم مساوات میں اضافہ اور حکمرانی کمزوری ہوئی ہے۔ آئی ایم ایف کے حکم پر لاگو کی جانے والی قیمتوں کے حساب سے ٹیرف، سبسڈیوں میں کمی، اور توانائی کے شعبے کی ساختی اصلاحات کے باعث بلند قیمتوں نے صارفین اور صنعتوں پر مزید بوجھ ڈالا ہے۔ اگرچہ پاور پرچیز ایگریمنٹس (PPAs) کی نئی شرائط اور صنعتوں کو قومی گرڈ پر منتقل کرنا عارضی استحکام فراہم کر سکتا ہے، لیکن یہ زیادہ تر نجی شعبے کے مفادات کی خدمت کرتے ہیں، بے روزگاری میں اضافہ
کرتے ہیں، اور مزید لوگوں کو غربت کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔طاقتور ریاستیں اہم شعبوں پر اسٹریٹیجک کنٹرول برقرار رکھتی ہیں تاکہ قومی استحکام اور سلامتی کو یقینی بنایا جا سکے۔ تاہم، پاکستان نے نجکاری اور ڈی ریگولیشن کے باعث بتدریج یہ کنٹرول کھو دیا ہے، جس سے ریاستی ادارے کمزور ہو گئے ہیں۔ خاص طور پر1990کی دہائی سے جاری لبرلائزیشن کی پالیسیوں نے ریاستی صلاحیتوں کو ختم کر دیا ہے، جس سے پاکستان ایک ایسی راہ پر گامزن ہو گیا ہے جو اسے معاشی طور پر کمزور اور انحصار پذیر بنا رہی ہے، بالکل ویسے ہی جیسے چھوٹے اور کمزور ممالک ہوتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی پالیسیاں، جن میں مزید ٹیرف میں کمی شامل ہے، صنعتوں کے زوال کو تیز کر سکتی ہے اور پاکستان کو ترقی یافتہ معیشتوں کے لیے محض ایک منڈی میں تبدیل کر سکتی ہے۔ یہ انحصار پر مبنی ماڈل پاکستان کی معاشی خودمختاری کو تباہ کر رہا ہے اور اس کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔موسمیاتی عمل کا فریم ورک عالمی ناہمواریوں کو مزید بے نقاب کرتا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک پر دبائو ہے کہ وہ2030 تکCO کے اخراج میں50 فیصدکمی کریں، جبکہ صنعتی ممالک، خصوصاً امریکہ، بدستور بلند سطح پر آلودگی پھیلا رہے ہیں۔ مغربی حمایت یافتہ موسمیاتی منصوبے، جو زیادہ تر قرضوں کے ذریعے فنڈ کیے جاتے ہیں، حقیقی پائیداری کو فروغ دینے کے بجائے قرضوں کے جال کو مزید گہرا کر دیتے ہیں۔ پاکستان کے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (PSDP) کو موسمیاتی منصوبوں کی طرف موڑنا ان بنیادی سرمایہ کاریوں کی قیمت پر ہو رہا ہے جو معیشت کی ترقی کے لیے ضروری ہیں۔ اس طرح کی بیرونی مسلط کردہ پالیسیاں
پاکستان کو پسماندگی اور مالیاتی غلامی میں جکڑے رکھتی ہیں۔پاکستان کی سماجی و معاشی حالت بدتر ہو چکی ہے۔ بنیادی ضروریات عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں، جہاں آمدنی کا48فیصد حصہ خوراک اور28فیصد توانائی پر خرچ ہو جاتا ہے۔ غربت کی شرح 40فیصد تک پہنچ چکی ہے، یعنی 9کروڑ50لاکھ لوگ اس کی لپیٹ میں ہیں۔ شہری خاندان کم از کم اجرت میں گزارہ کرنے پر مجبور ہیں، جبکہ دیہی کسان پیداواری صلاحیت میں کمی اور بڑھتی ہوئی لاگت سے دوچار ہیں۔ کاروبار گرتی ہوئی قوتِ خرید کے باعث شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ بلند ٹیکس اور مہنگی توانائی پیداواری اخراجات میں اضافہ کر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں کارخانے بند ہو رہے ہیں اور روزگار کے مواقع ختم ہو رہے ہیں۔ اس تمام صورتحال نے بے روزگاری میں اضافہ، اجرتوں کو جمود کا شکار اور معیشت کو زوال کی طرف دھکیل دیا ہے۔ حالات کی سنگینی کے پیش نظر لاکھوں پاکستانی بیرون ملک مواقع تلاش کر رہے ہیں، جس سے برین ڈرین تیزی سے بڑھ رہا ہے اور ملک ہنر مند افرادی قوت سے محروم ہو رہا ہے۔اس کا واحد حل یہ ہے کہ پاکستان کو اس استعماری نظام کو جڑ سے ختم کرنا ہوگا اس کا حل موجود ہ نظام میں تلاش کرنا عطار کے بالکے سے دوا لینے کے مترادف ہوگا اس کا حل وحی پر مبنی راستے کو اختیار کرنا ہوگا جو پوری دنیا میں عدل و انصاف کا نظام قائم کرے گا۔اسلام اورخلافت راشدہ کے معاشی اور مالیاتی احکامات وحی پر مبنی ہیں، جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ، الحکیم اور العلیم کی طرف سے نازل کیے گئے ہیں۔اسلامی معیشت اور نظام خلافت راشدہ دولت کی منصفانہ تقسیم، حلال ذرائع سے خوشحالی، اور شریعت کے مطابق آمدنی کے ذرائع کو یقینی بنانے کی ضامن ہوتی ہے جس میں بیرونی انحصار اور استعماری اداروں کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ایسے میں معاشی استعمار سے حقیقی نجات حاصل کرنے کیلئے ہمیں اسلام کے نظام خلافت کی طرف لوٹنا ہوگا۔

مزید پڑھیں:  ایک اور گیم چینجر ایک او رسراب؟