رہنے دو ابھی ساغر و مین ا مرے آگے

برصغیر کی سیاست کو عمومی طور پر جمہوری ضرور قرار دیا جاتاہے تاہم اس جمہوریت کی گھٹی میں موروثیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے اور بھارت ‘ بنگلہ دیش کے ساتھ ساتھ پاکستان میں جتنی بھی سیاسی جماعتیں ہیں ان میں اکا دکا کو چھوڑ کر باقی جماعتوں کا جائزہ لیا جائے تو ان پر ”موروثی خاندانوں” کی چھاپ نمایاں دکھائی دیتی ہے ‘ بھارت میں تقسیم ہند کی سب سے اہم جماعت کانگریس نہرو کے بعد اندرا گاندھی اور اس کے بعد کچھ عرصے تک دیگر رہنمائوں کی سربراہی میں اگرچہ کام ضرور کرتی رہی تاہم موروثیت کے چنگل سے آزادی اسے بھی نصیب نہ ہوسکی اور زمام اقتدار کے ساتھ ساتھ پارٹی پر راجیو گاندھی کے بعد اس کی اہلیہ اور موصوفہ کے بعد راہول گاندھی کا تسلط رہا بلکہ اس وقت بھی ہے اسی طرح بنگلہ دیش میں مجیب الرحمن اور ان کے پورے خاندان کو قتل کئے جانے کے بعد پارٹی اور حکومت پر شیخ حسینہ واجدمسلط ہو گئیں اور گزشتہ کئی ادوار تک وزارت عظمیٰ ان کے تصرف میں رہی تاوقت یہ کہ ان کی حکومت کا تختہ الٹ کر انہیں ملک سے بھاگنے اور بھارت میں پناہ لینے پر مجبورنہ ہونا پڑا اسی طرح حسینہ واجد کے ایک دور کے بعد خالدہ ضیاء برسر اقتدار آئیں تو وہ بھی اپنے شوہر کی ”قربانیوں” کے طفیل ملک پر قابض رہیں اب جب ہم اپنے ملک پاکستان کا جائزہ لیتے ہیں تو جماعت اسلامی اور تحریک ا نصاف کے علاوہ دیگر اہم جماعتوں پر موروثیت کی چھاپ نمایاں نظر آتی ہے کس کس جماعت کا ذکر کیا جائے ‘ تاریخ ہمارے سامنے ہے’ خواہ مسلم لیگ کے (مختلف دھڑے ہوں)’ پیپلز پارٹی ہو ‘ اے این پی (سابق این اے پی) ہو ‘ جمعیت علمائے اسلام ہو ‘ یادیگر کئی ایک سیاسی جماعتیں ‘ ان میں سے اکثر کے اندر جمہوریت سرے سے موجود ہی نہیں ہے ‘ یا دور اگر کہیں کوئی صورت ”جمہوریت” کی نظر آتی بھی ہے تو اسے بہت حد تک ”کنٹرولڈ” جمہوریت سے زیادہ کی حیثیت حاصل نہیں ہے ‘ یعنی وہاں مقررہ مدت کے بعد انٹرا پارٹی انتخابات ضرور ہوتے ہیں مگر ان جماعتوں کے آئین اپنے اندراتنی ”گنجائش” ضرور رکھتی ہیں کہ ان جماعتوں کے مخصوص ٹولے ہی ہر بار جماعتی انتخابات ”جیت” کر یا پھر بلا مقابلہ منتخب ہو کر پارٹی پر مستقل طور پر ”سیاسی قبضہ” برقرار رکھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ‘ یعنی بقول سید محمد جعفری مرحوم
ایبسٹریکٹ آرٹ کے ملبے سے یہ دولت نکلی
جس کو سمجھے تھے انناس وہ عورت نکلی
موروثی جمہوریت کے حوالے سے یہ باتیں اس لئے یا د آئیں کہ ابھی دو تین روز پہلے دوپارٹیوں کے انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے ہیں اور ا ن میں یہی کیفیت ہے جس کا ہم نے اوپر کی سطور میں ذکر کیا ہے ‘ ان میں ایک تو پاکستان پیپلز پارٹی ہے جس پر بھٹو کے گزرنے کے بعد موروثیت کی چھاپ بڑی گہری تو ہے مگر موروثیت کی کیفیت محترمہ بے نظیر شہید تک ہی قائم تھی ‘ جو بھٹو کی بیٹی ہونے کے ناتے پارٹی پر اگرچہ ”قابض” ہو گئی تھیں حالانکہ موروثیت کے ”کلئے” کے مطابق میر مرتضیٰ بھٹو کو یہ منصب ملنا چاہئے تھا لیکن ایک تو میر مرتضیٰ بھٹو اس وقت بوجوہ ملک میں نہیں تھے دوسرے ان پر ” الذوالفقار ” کے حوالے سے الزامات بھی تھے جن سے محترمہ نے قطع تعلق کا اعلان کرکے اپنی سیاست محفوظ کر لی تھی دوسرے یہ کہ محترمہ نے اپنے والد کی سیاسی تربیت کی وجہ سے اس بات کا ثبوت دے دیا تھا کہ وہ واقعی عالمی سطح کی سیاسی مدبر ہیں ‘ اور بھٹو کی سیاسی وراثت پر ان کا حق بنتا ہے ‘ انہوں نے ایک طویل سیاسی جدوجہد کے بعد اقتدار سنبھالا تو نہ صرف اپنے والد کا نام روشن کیا بلکہ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں مثبت کردار بھی ادا کیا بدقسمتی سے ان کی شہادت کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کو ایک بار پھر موروثیت کے سوال سے دو چار ہونا پڑا ‘ اس نازک ترین مرحلے پر ایک مبینہ ”وصیت” سامنے آگئی جس نے ایک بار پھر پیپلز پارٹی کی ”موروثی سیاست” کارخ تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا اس حوالے سے اگرچہ گزشتہ دنوں میر مرتضیٰ بھٹو مرحوم کے فرزند ارجمند میر ذوالفقار علی جونیئر نے خاندانی سیاست میں اچانک انٹری دے کر اپنے ہونے کا ثبوت دے دیا ہے خاص طور پر جب سندھ میں نہروں کے مسئلے پر احتجاج کی خبریں گرم ہیں ذوالفقار جونیئر نے سندھی قوم پرستوں کا ساتھ دینے کا اعلان کرکے پیپلز پارٹی کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے ‘ تاہم اسی ہنگام پیپلز پارٹی کے انٹر پارٹی الیکشنزمیں بلاول بھٹو زرداری کو پارٹی کی سربراہی دے کر ”بھٹو لیگیسی” پر گرفت مضبوط کر لی گئی ہے یعنی بقول حفیظ جالندھری
حفیظ اہل زباں کب مانتے تھے
بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں
دوسری خبر پاکستان مسلم لیگ(ق) کے حوالے سے ہے جس کے مطابق چوہدری شجاعت حسین کو ایک بار پھر پارٹی کا صدر منتخب کر لیا گیا ہے یوں مذکورہ جماعت میں بھی ”خاندانی موروثیت” کی بنیادیں مضبوط کر لی گئی ہیں اگرچہ گزشتہ کچھ عرصے سے قاف لیگ کے اندر بھی خاندانی سیاسی ہلچل دیکھنے کو ملتی رہی خاص طور پر چوہدری پرویز الٰہی اور ان کے برخوردار چوہدری مونس الٰہی نے ملک کے اندر ہونے والی سیاسی اتھل پتھل اور مبینہ طور پر کچھ ”مقتدر حلقوں” کے آنکے میں آکر قاف لیگ کی قیادت سے بغاوت کر دی تھی اور اس کے ”انعام” کے طور پر انہیں پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا منصب سونپ دیا گیا تھا لیکن ایک جانب قانونی موشگافیوں اور دوسری جانب چوہدری مونس الٰہی کی مبینہ لوٹ کھسوٹ کے نتیجے میں پرویز الٰہی پر برا وقت آگیا ‘ مونس الٰہی اپنے والد کو تنہا چھوڑ کر ملک سے بھاگ گیا تو چوہدری پرویز الٰہی بے چارہ پس زنداں چلا گیا غسل خانے میں پھسل کر غالباً کولھے کی ہڈی تڑوا بیٹھا اور پنجاب کا تخت بھی ان سے چھوٹ گیا ‘ اب اگرچہ چوہدری شجاعت حسین ایک بار پھر اپنی جماعت (ق) لیگ پر انٹر پارٹی الیکشن کے نتیجے میں بطور صدر”قابض” ہوگئے ہیں جو موروثی سیاست کی ایک علیحدہ سی مثال ہے کیونکہ چوہدری صاحب بے چارے ایک عرصے سے صاحب فراش ہیں اور صحیح بول سکتے ہیں نہ فعال سیاسی کردار ادا کر سکتے ہیں مگر یہ کم بخت سیاست چیز ہی ایسی ہے جو آسانی سے جان نہیں چھوڑتی ‘ اور متعلقہ شخص یا اشخاص کی کیفیت مرزا غالب کے اس شعر کے مطابق ہوئی ہے کہ
گو ہاتھ میں جنبش نہیں ‘ آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے
ہماری سیاسی تاریخ نے ایسی شخصیات بھی دیکھی ہیں جو مکمل طور پر Paralise ہونے کے باوجود اقتدار چھوڑنے کو تیار نہیں تھے جیسے کہ سابق گورنر جنرل عمر کے آخری حصے میں بات تک نہیں کر سکتے تھے اور بڑے سے بڑے سرکاری عہدیداروں کو مغلظات بکنے سے بھی باز نہیں آتے تھے یہاں تک کہ ہلنے جلنے سے بھی معذور ہو گئے تو سلیٹ پر لکھ کر گالیاں افسروں ‘ وزیروں کو دے کر دل کا غبار ہلکا کر لیتے تھے ‘ بقول امجد اسلام امجد
اس کے لہجے میں برف تھی ‘ لیکن
چھوکے دیکھاتو ہاتھ جلنے لگے

مزید پڑھیں:  دہشت گردوں کے خلاف مؤثر کارروائی