خشت اول تو سیدھی کیجئے

وزیراعظم شہباز شریف نے اختلافات بھلاکر دہشت گردی کے خلاف قومی اتحاد ناگزیر قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے جہاد جاری رہے گا، انسانیت دشمنوں کو ایسی عبرتناک شکست دیں گے کہ وہ پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں کرسکیں گے۔وزیر اعظم کے زیر صدارت اعلیٰ سطحی اجلاس میں صوبوں کے نمائندوں کے ساتھ ساتھ اعلیٰ حکام نے بھی شرکت کی جس میں ملک بھر میں مختلف اہم اقدامات اور منصوبوں کا جائزہ لیا گیا اس موقع پر سمگلنگ کی روک تھام اور پیشہ ورانہ گداگری کی روک تھام اور سیف سٹی پراجیکٹس کا بطور خاص جائزہ لے کر اقدامات تجویز کئے گئے ۔محولہ امور پر اعلیٰ سطحی اجلاس بھی تسلسل ہی قرار پاتا ہے ان مجالس میں زیر غور اور قابل غور اقدامات پر عملدرآمد کی نوبت کم ہی آتی ہے اور یہی وہ مشکل ہے جس کے باعث بار بار اجلاسوں کے انعقاد کی ضرورت پیش آتی ہے بہرحال اس جملہ معترضہ سے قطع نظر ہم سمجھتے ہیں کہ وزیر اعظم نے اس اجلاس میں جس سنجیدہ مسئلے کے بارے میں صرف ایک لفظ یا پھر مختصر جملہ کہنے پر اکتفا کیا ہے اگر دیکھا جائے تو ملک میں بے چینی اور انتشار کی جڑیں اسی مسئلے سے جڑی ہوئی ہیںمختلف مواقع پر ان کی موجودگی میں لگنے والے نعرے ہوں یا سوشل میڈیایا سمندر پار پاکستانیوں کی جانب سے بے چینی کا اظہار یا پھر ذرائع ابلاغ میں جاری مسلسل اور لامتناہی موضوع یہ سب ملک میں سیاسی تقطیب سے جڑی ہوتی ہیں اور ہر کس و ناکس کی بے چینی کی وجہ اور اس سے نکلنے کا راستہ سیاسی طور پر جاری بے چینی کا خاتمہ ہے اب اس کی ذمہ داری حکومت و ریاست اور سیاسی جماعتوں کے کردار و رویوں پر کس درجہ عاید ہوتی ہے اس کا تعین مشکل کام ہے تاہم اس کا اعتراف کئے بنا چارہ نہیں کہ یہ مسئلہ ہمارے اعصاب پر سوار ضرور ہے جس سے نکلنے کی ذمہ داری اس بے چینی کے اسباب پیدا کرنے والے اور اس میں شامل تمام فریقوں پر یکساں عاید ہوتی ہے کہ وہ اپنے قول و فعل او رکردار و عمل میں لچک اور نرمی لا کر اس کے لئے راہ ہموار کرنے کا باعث کردار کا مظاہرہ کریں اب صورتحال اس قدر بندگلی کے آخری نکڑ پر آکھڑی ہوئی ہے کہ نہ آگے جانے اور نہ پیچھے ہٹنے کا کوئی راستہ ہے آگے بڑھنا مشکل بالکل ناممکن ہے ایسے میں پیچھے ہٹنے کے لئے ایک دوسرے کو راستہ دینا ضروری ہو گیا ہے جس کے لئے ہر فریق کو اپنے کردار و عمل کو ضمیرکی کسوٹی پر پرکھ کر فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے جب تک فساد کی اس جڑ کا خاتمہ نہیں ہوتا اس پر کھڑی صورتحال اور حالات ملک کو انجماد کی کیفیت کا شکار بنائے رکھیں گی اس کیفیت میں تبدیلی سے ہی دیگر عوامل وابستہ ہو کر رہ گئی ہیں خواہ اس کا ادراک و اعتراف کیا جائے یا نیہں جب تک اس کو حقیقت گردان کر اس سے نکلنے کی راہ نہیں نکالی جائے گی سیاسی جمود کے اثرات حکومت و ریاست کے پائوں کی بیڑیاں ثابت ہوتی رہیں گی ہم سمجھتے ہیں کہ وزیر اعظم کو اس حوالے سے ایک سنجیدہ اور متین ابتداء کرنے پر ترجیحی بنیادوں پر توجہ دینا چاہئے حال ہی میں سابق وزیر اعظم وقائد مسلم لیگ نون نواز شریف کی جانب سے بلوچستان کے مسئلے کے حل کے حوالے سے جن مساعی کی ابتداء کی گئی اسی کے نتیجے ہی میں احتجاج اور دھرنا ختم کیا گیا کینالز کے حوالے سے سندھ کے تحفظات اگر سنجیدہ ہیں تو اس موضوع پر بھی حکومتی و غیر حکومتی طور پر مفاہمانہ کوششوں کی ضرورت ہے اسی طرح معدنیات کے حوالے سے قانون سازی پر خیبر پختونخوا میں جس طرح متفقہ طور پر شدید تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے اور جو سنجیدہ نکات اٹھائے جارہے ہیں اس حوالے سے صوبائی حکومت اور سیاسی جماعتیں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اس حوالے سے قومی سطح پر اتفاق رائے اور صوبے کے تحفظات دور کرنے اور حقوق کی ضمانت کی یقین دہانی کے لئے اس معاملے پر بھی قومی سطح پر ایسی شخصیات کی جانب سے کوششیں ہوں جو مقتدر معتبر اور قابل قبول ہوں اور اس اعتماد کے حامل ہوں کہ ان کی یقین دہانی اور ضمانت پر اعتماد کیا جا سکے اگر روایتی زبردستی کا مظاہرہ کیا گیا تو خدشہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں بھی بلوچستان کی طرح مزاحمانہ آوازیں بلند ہونا شروع ہوجائیں گی جن کو دہشت گردی و بدامنی سے پھیلی مایوسی کی فضا مہمیز دے سکتی ہے بنابریں احتیاط اور مفاہمت کا راستہ ہی ہوشمندی کا تقاضا ہے ۔ ملک کو موجودہ حالات سے نکالنے کیلئے جس قومی یکجہتی اور اتحاد کی ضرورت ہے اس کے منزل کے حصول کی جانب درست سمت میں سفر اختیار کئے بغیر ملک کو مشکلات سے نکالنا شاید ہی ممکن ہو پہلے سمت درست ہونی چاہئے اس کے بعد منزل کی طرف قدم بڑھائے جائیں۔

مزید پڑھیں:  یونیورسٹیوں کے ریٹائرڈ ملازمین کا نوحہ