وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن سے خطاب میں درست کہا ہے کہ فیصلہ سازوں کو لیڈر نہیں غلام چاہئیں ان کے بیان کی روشنی میں ماضی سے لیکر حال تک کا جائزہ لیا جائے تو وزیر اعلیٰ کا بیان آدھا سچ ہے پورا سچ یہ ہے کہ خود ہمارے سیاستدان اور حکمران بھی خوئے غلامی رکھتے ہیں او انہی کی چوکھٹ پر ماتھا رگڑ کر اقتدار کی راہداریوں میں داخل ہونے کا راستہ چنتے ہیں اس سے کوئی بھی مستثنیٰ نہیں ایسے میں قصور عطار کا نہیں عطار کے بالکوں کا ہے جو انہی کے دواخانے حاضر ہوتے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ ملک میں اچھی حکمرانی او رحقیقی اقتدارکا راستہ اختیار کرکے ہی جمہوریت کے تقاضے پورے کئے جا سکتے ہیں عوام ہر بار اپنا جمہوری کردار احسن طریقے سے ادا کرتے ہیں مگر اس کے باوجود ان کے حقیقی نمائندے آگے نہیں آتے اور راستے میں کسی اور گاڑی میں سوار ہو کر عوام کے اعتماد کو متزلزل کرنے کا باعث بنتے ہیں یہ سلسلہ جب تک جاری رہے گا اور کبھی کبھارہی کسی جذباتی خطاب کے موقع پر اس غلطی کو موضوع بنایا جائے گا کبھی بھی اس چکر سے نکلنا ممکن نہ ہو گا سمجھوتے سے حصول اقتدار کی غلطی کسی ایک سیاسی جماعت ہی کا وتیرہ نہیں بظاہر مخالفت میں مونچھوں کو تائو دینے والوں سے بھی بعید نہیں کہ درپردہ کہانی کچھ اور ہو توقع کی جانی چاہئے کہ اس کا اب بلاتاخیر ادراک ہو گا اور غلامی کا تذکرہ و شکایت پر اکتفا کرنے کی بجائے غلامی کی زنجیریں توڑنے کا عملی عزم سامنے آئے گا یاد رھنے کی بات یہ ہے کہ اس ضمن میں صرف شکوہ شکایتیں کافی نہیں بلکہ عزم صمیم کا مظاہرہ کرنا ہو گا دیکھنا یہ ہے کہ اس کی حقیقی ابتداء کہاں سے ہوتی ہے اور تالاب میں پہلا پتھر کون پھینکتا ہے۔
