موسمی حدت اور تغیرات کے جس خطرے سے ماہرین کے خبردار کئے جانے کے باوجود ہمیں سمجھنے میں دشواری تھی اب قدرتی حالات نے عملی طور پر سمجھا دیا ہے کہ موسمی تغیرات کی تباہی کاریاں کیا ہوتی ہیںمارچ کے اواخر اور اپریل میں چترال ‘ گلگت بلتستان اور اس طرح کے علاقوں میں خلاف عادت سیلابی ریلوں سے بھی خطرے کے آخری نشان کی نشاندہی ہوتی ہے ۔ ماحولیاتی تغیرات کے ہر چیلنجزاب عالمی سطح پر سامنے آرہے ہیں پاکستان کا ماحولیاتی کثافت میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے مگر اس سے متاثرہ ملکوں میں قابل ذکر ہے مزید مشکل یہ ہے کہ پاکستان کو ایک جانب جہاں محولہ نوعیت کے شدید مسائل کا سامنا ہے وہاں دوسری جانب پانی کی شدید کمی اور بحران بھی سر اٹھا چکا ہے اب یہ مسئلہ اندرونی اور داخلی طور پربھی شدت کے ساتھ سامنے آیا ہے کہ اس کے اثرات سے وفاق کے متاثر ہونے کے خدشات جنم لینے لگے ہیں اندرونی طور پر پاکستان کو ایک اور چیلنج کا سامنا ہے۔وہ یہ کہ چولستان کینال پراجیکٹ پر پنجاب اور سندھ کے درمیان جاری پانی کا تنازعہ آبی وسائل کے منصفانہ انتظام کی عجلت کی نشاندہی کرتا ہے۔ تربیلا اور منگلا میں آبی ذخائر کی سطح خطرناک حد تک کم ہونے اور خشک سالی اور شدید موسم دونوں کی وجہ سے زرعی پیداوار کو خطرہ ہونے کے باعث خوراک کی عدم تحفظ کا خطرہ بہت بڑھ گیا ہے۔اس امر کا اب سنجیدگی سے ادرک ہونا چاہئے کہ اب غیر منقولہ وعدوں پر بھروسہ کرنے یا یہ فرض کرنے کا وقت نہیں رہا اور نہ ہی اس کا متحمل ہوا جا سکتا ہے کہ ریلیف بیرون ملک سے آئے گا۔ اس صورتحال کا تقاضا ہے کہ ایک قومی موسمیاتی ایکشن پلان کو فوری طور پر اپ ڈیٹ اور نافذ کیا جائے جس میں ایسے واقعات کے لیے بہتر پیشنگوئی، آبپاشی اور کاشتکاری کے بہتر طریقے اور پانی کے تحفظ کی سنجیدہ کوششیں شامل ہوں۔ ہمیں آب و ہوا کی غیر یقینی صورتحال کے نتیجے میں مستقل بنیادوں پر مجبور کیا جا رہا ہے، اور ہمیں اس بحران کا مقابلہ اس سنجیدگی کے ساتھ کرنا چاہیے جس کا یہ مستحق ہے الگ تھلگ آفات کے سلسلے کے طورپر نہیں بلکہ قومی بقا ء کے لیے ایک ساختی خطرے کے طور پر’بصورت دیگر غیر ملکی امداد کے ساتھ کارروائی کا بوجھ مکمل طور پر ریاست پرآئے گا جس کی سکت نہیں اور نہ ہی یہ بار اٹھانے کی حکومت قابل ہے دوسری جانب افسوسناک امر یہ بھی ہے کہ وطن عزیز میں موسمیاتی تغیرات کے باعث جو صورتحال بنتی جا رہی ہے ایسا لگتا ہے کہ حکومت اس سے قدرت کا کیا گردان کر اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی اور اقدامات ضروری نہیں سمجھتی موسمیاتی تبدیلی سنگین مسئلہ ہے اور حکومت کو چیتے کی رفتار سے چلنا چاہیے لیکن وہ کچھوے کی چال چل رہی ہے اس ضمن میں حکومتی تساہل کا عالم یہ ہے کہ ابھی تک موسمیاتی تبدیلی اتھارٹی کے چیئرمین کے کی تقرری میں ہی حکومت کو کامیابی نہیں ملی ہے حالانکہ جہاں حکومت کا مفاد ہوتا ہے اور بندہ کھپانا ہوتا ہے تو روز کی رولز کی پرواہ کیے بغیر تقرری کر دی جاتی ہے یہاں پر معاملہ الٹا ہے حکومت صرف اشتہار پر اشتہار دینے پر شاید اس لیے اکتفا کر رہی ہے کہ اس حوالے سے اگر تقرری کی گئی اور قوانین بنائے گئے تو پھر اس ضمن میں کام کی بھی ضرورت پڑے گی ابھی چونکہ کچھ ہے ہی نہیں تو پھر اقدامات اور کارکردگی کا بھی سوال نہیں اٹھے گا موسمیاتی تبدیلی کے رولز کا مسودہ 2017 میں بنے لیکن سست روی کا عالم یہ ہے کہ ابھی تک نہ چیئرمین کی تقرری ہوئی ہے اور نہ ہی رولز کی منظوری دی گئی ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے پورا ملک متاثر ہو رہا ہے اور اس سے بچائو کے اقدامات اٹھانے میں ذرا بھی وقت صرف کرنے بلکہ ضائع کرنے کی گنجائش نہیں حکومت آخر کیوں اس معاملے میں اس قدر تاخیر کا مظاہرہ کر رہی ہے کہ ابتدائی قدم ہی اٹھانے کی نوبت نہیں آتی شاید حکومت کو اس معاملے کی سنگینی کا ادراک ہی نہیں بہرحال جو ہوا سو ہوا کہ مصداق حکومت کو اب خواب غفلت سے جاگ جانا چاہیے اور مزید وقت ضائع کیے بغیر موسمیاتی تبدیلی اتھارٹی کو فعال بنایا جائے اس کے چیئرمین کا بلا تاخیر تقرر عمل میں لایا جائے اور ضروری قانون سازی بلا تاخیر ہونی چاہئے اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو وہ تمام ممکنہ اقدامات اٹھانے میں جہاں سرکاری طور پر ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے وہاں عوام میں بھی شعور پیدا کر کے اس ضمن میں عوامی تعاون کے حصول کو بھی یقینی بنانے پر توجہ دی جانی چاہئے۔
