طویلے کی بلا بندر کے سر

برطانوی نشریاتی ادارے نے ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی جانب سے حاصل کئے گئے5لاکھ ہتھیار ضائع ہو چکے ہیں، انہیں فروخت کیا جا چکا ہے یا عسکریت پسند گروہوں کو اسمگل کیا جا چکا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق طالبان نے2021میں افغانستان پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے بعد تقریباً 10لاکھ ہتھیاروں اور فوجی سازوسامان کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ ان ہتھیاروں کے ذخیرے میں امریکی ساختہ اسلحہ، جیسے ایم4اور ایم16رائفلز کے ساتھ ساتھ افغانستان کے قبضے میں موجود دیگر پرانے ہتھیار بھی شامل تھے جو دہائیوں سے جاری لڑائی کے بعد وہاں رہ گئے تھے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ا فغانستان سے انخلاء کے وقت جس طرح امریکی افواج نے تندی اور تیزی کا مظاہرہ کیا اور اربوں روپے کا اسلحہ اپنے ساتھ واپس لے جائے بغیر وہاں سے نکل بھاگنے کی حکمت عملی اختیار کی ‘ اس پر اگرچہ ہمارے ہاں عمومی طور پر جو بیانیہ سامنے آیا اور اس انخلاء کو امریکی شکست سے تشبیہ دی اس کے نتائج و عواوقب پر کوئی غور کیا گیا نہ توجہ دی گئی مگر اس کے بعد ” امریکی انخلائ” کے جو نتائج نکلتے دکھائی دیئے اس سے صورتحال کی سنگینی کا احساس جلد ہی تجزیہ کاروں کو ہونے لگا کیونکہ حقیقت تو یہ ہے کہ امریکہ نے وہاں اربوں کا جدید ترین اسلحہ اور دیگر سازوسامان ایک خاص سٹریٹیجی کے تحت ”جان بوجھ کر” چھوڑا تھا جوپاکستان میں دہشت گردی کے لئے استعمال کیا جانے لگا۔بی بی سی محولہ رپورٹ سے اس کی تصدیق درتصدیق بھی ہوتی ہے امریکی صدر نے محولہ اسلحہ واپس لینے کا جو عندیہ دیا تھا اس پر عملدرآمد کے لئے عملی اقدامات کا اب موزوں وقت ہے اس اسلحہ سے ایک شدید متاثرہ اور خطرے سے دوچار ملک کے طور پر پاکستان بھی اس مسئلے کا فریق ہے جسے حل کرنے کے لئے امریکہ افغان طالبان اور پاکستان کو کسی لائحہ عمل پر متفق ہونا چاہئے یہ ا یک مشکل اور پیچیدہ مرحلہ ضرور ہے لیکن ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا بھی نہیں جا سکتا ۔امریکہ کے پاس درست اعداد وشمار ضرور ہوں گے ان کے انخلاء کے بعد یہ اسلحہ کس کے ہاتھ لگا اس بارے افغانستان کی حکومت بہتر بتا سکتی ہے پاکستان اس معاملے کا اصل متاثرہ فریق ہے جس کی اس معاملے میں اعانت اور اس جدید اسلحہ کے مقابلے اور اس سے بچنے کے لئے اسی پائے کے جدید ہتھیار رکھنے کا حقدار ہے امریکہ کے غلط اور حیرت انگز فیصلے کا خمیازہ پاکستان کو نہیں بھگتنا چاہئے۔

مزید پڑھیں:  غزہ کی ہولناکی