پشاور کی ضلعی انتظامیہ نے روٹی کی قیمتوں کا نیا نرخ نامہ جاری کر دیا ہے تمام تندور مالکان کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ تندور پر ڈیجیٹل ترازو لازمی رکھیں تاکہ صارفین روٹی کا وزن خود چیک کر سکیں۔ضلعی انتظامیہ کی اس تکلف کے ساتھ نانبائی کیا سلوک کریں گے اس کا تو بخوبی اندازہ ہے البتہ ہر تندور پر ڈیجیٹل ترازو رکھ کر گاہک کو وزن دکھایا جائے تو گاہک خود اپنے مفاد کے تحفظ کے لئے جدوجہد کر سکتے ہیں۔ آٹے کی قیمتوں میں مسلسل کمی کے باعث روٹی کی قیمت بھی بیس روپے تو کر دی گئی ہے مگر عملی طور پر شہر میں اس وقت صرف سو گرام سے بھی کم روٹی کی قیمت بیس روپے میں نہ صرف فروخت ہوتی ہے بلکہ تازہ فیصلے کے ردعمل میں اس کے وزن میں مزید کمی کا بھی امکان اس لئے ہے کہ نانبائی کبھی بھی مقررہ قیمت اور وزن کی روٹی فروخت نہیں کرتے اور نہ ہی انتظامیہ ان کو پابند کرنے میں کامیاب ہوتی ہے ڈبل روٹی کے نام پر مزید استحصال کرتے ہوئے بجائے دوسو گرام وزن کی روٹی بھی کہیں تیس اور کہیں چالیس روپے میں ڈھڑلے سے فروخت کی جارہی ہے ۔اس پر پابندی مذاق سے کم نہیں 150 گرام کی روٹی بیس روپے میں عوام کو ملنی چاہئے لیکن اس فیصلے پر کہیں بھی عمل درآمد نہیں ہوئی اور شاید ہونے بھی نہ پائے کیونکہ تندور مافیا ہر ایسے اقدام کی مخالفت کے لئے کمربستہ ہوکر اس کے خلاف ڈٹ جاتا ہے اور اب بھی ایسا ہی لگ رہا ہے کہ اگر حکومت نے اس فیصلے کے اطلاق کی کوششوں میں سنجیدگی دکھائی تو تندور مافیا ایک آدھ تو شاید مجبوراً اس پر عملدرآمد کرے مگر اس کے بعد دوبارہ”اپنی خونہ چھوڑتے ہوئے” پرانے طور طریقے استعمال کرتے ہوئے نہ تو وزن بڑھانے پر آمادہ ہو گا نہ ہی قیمت میں کمی پر راضی ‘ حالانکہ یہی طبقہ جب بھی آٹے کی قیمت میں معمولی اضافہ ہوتا ہے تو”از خود نوٹس” کے کلئے کے تحت اپنی مرضی سے روٹی کا وزن کم اور قیمت میں اضافہ کرکے عوام کو لوٹنا شروع کر دیتا ہے ‘ بہرحال ”دا گز دا میدان” کے تحت دیکھتے ہیں کہ حکومت اس مافیا کو نکیل ڈالنے میں کامیاب ہوتی ہے اور نہ صرف روٹی کا وزن ڈیڑھ سو گرام قیمت پر عملدرآمد ہوتا بھی ہے’ یا پھر اس مافیا کے آگے گھٹنے ٹیکنے اور اسے عوام کی چمڑی اتارنے کی کھلی اجازت دینے پرمجبور ہوتی ہے ۔
