میں رات سوچ رہا تھا حرام کیا کیا ہے ؟

مارکیٹ ا کانومی کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ منافع کمانے کا کوئی موقع ضائع نہ کیا جائے اس کلئے کے تحت منافع کہیں سے بھی آرہا ہو ‘ اسے ضائع نہیں ہونے دینا ‘ خواہ یہ اپنے ہی بھائی ‘ عزیز ‘ رشتہ دار کی جیب سے کیوں نہ نکل رہا ہو ‘ اس لئے انگریزی کے لفظ Opportunity کی اہمیت کو ہمیشہ مدنظر رکھا جاتا ہے’ اس حوالے سے ایک بہت پرانے پی ٹی وی مزاحیہ پروگرام ففٹی ففٹی کا ایک خاکہ یاد آرہا ہے ‘ اس خاکے میں اسماعیل تارا جو لانچوں پر دوبئی سے سمگل ہونے والی اشیاء کا کاروبار کرتا ہے اور ا کثر وہاں سے آنے والی مختلف اشیاء سستے داموں خرید کر لاتا ہے اور اپنے جاننے والوں پر مہنگے داموں فروخت کرتا ہے ‘ ایسے ہی ایک پروگرام میں وہ گھر آتا ہے تو اس کے ہاتھ میں ریڈیو ‘ کیسٹ ریکارڈر ہوتا ہے بیوی پوچھتی ہے ‘ کتنے میں آیا ہے ؟ وہ قیمت بتاتا ہے بیوی پوچھتی ہے ‘بیچو گے؟ کیوں نہیں ‘ اسی لئے تو لیکر آیا ہوں ‘ بیوی قیمت پوچھتی ہے تو کچھ منافع رکھ کر قیمت بتاتا ہے وہ رقم دے کر کیسٹ ریکارڈر لے لیتی ہے ‘ پھر پوچھتی ہے کیا واپس خریدوگے؟ کیوں نہیں ‘ اپنا تو کام ہی بیچنے اور خریدنے کا ہے ‘ بولو کتنی رقم دوں ‘ بیوی اپنا منافع شامل کرکے قیمت بتاتی ہے تو وہ رقم ا دا کرکے ٹیپ ریکارڈر ‘ ریڈیوٹرانسسٹر واپس لے لیتا ہے اور کہتا ہے یہ سنبھال کر رکھنا ‘ ابھی ایک گراہک(گاہک) آنے والا ہے اس پر بیچوں گا ‘ اتنے میں گھر کی گھنٹی بجتی ہے تو اسماعیل تارا دروازہ کھولتا ہے جہاں مطلوبہ گاہک کھڑا دکھائی دیتا ہے ‘ اسے اندر لاتا ہے تو وہ پوچھتا ہے ہاں بھئی کچھ نیا مال آیا ہے ؟ جواب ملتا ہے ہاں ‘ نئے ماڈل کا ریڈیو ‘ کیسٹ ریکارڈر لایا ہوں بڑی مشکل سے ہاتھ لگا ہے اور وہ ٹیپ ریکارڈر ا سے دکھاتا ہے گاہک قیمت پوچھتا ہے تو اسے کہتا ہے بھائی آپ سے کیا پردہ گھر میں اتنے کا پڑا ہے (جو قیمت بیوی کو ادا کر چکا ہوتا ہے )اب جو مناسب ہو نفع دے کر لے جائو تھوڑی سی ردو قدح کے بعد گاہک ادائیگی کرکے وہ کیسٹ ریکارڈر ‘ ریڈیو سیٹ لے جاتا ہے یوں نہ صرف ایک ہی چیز کو پہلے بیوی پر بیچ کر نفع کماتا ہے پھر اس سے واپس خرید کر بیوی کو منافع کمانے کا موقع دیتا ہے اور آخر میں اصل گاہک کے ہاتھ فروخت کرنے سے مزید منافع اچک لیتا ہے ۔ یعنی بقول نظیر اکبر آبادی
کیا خوب سودا نقد ہے
اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے
پروگرام ففٹی ففٹی کا یہ مزاحیہ خاکہ یوں یاد آیا کہ مارکیٹ اکانومی مذاق نہیں بلکہ اب سنجیدگی کے تقاضوں کے عین مطابق لوگ اس سے مستفید ہوتے ہیں ‘ اور وہ جو پی ٹی وی کے مزاحیہ خاکے میں اپنوں ‘ پرایوں کے ساتھ کاروباری معاملات میں کوئی رو رعایت نہیں رکھی جاتی یعنی پہلے بیوی
پر کیسٹ ریکارڈ منافع رکھ کر فروخت کر دیا جاتا ہے ‘ پھر وہی چیز اسے منافع دے کر خرید لیا جاتا ہے اور پھر مزید منافع کمانے کے لئے اصل گاہک کو تھما دیا جاتا ہے تو گزشتہ روز جب ملک کے کچھ علاقوں میں آندھی ‘ طوفان ‘ بارش اور ساتھ ہی اولے پڑنے سے جو تباہی مچی ‘ اس حوالے سے سوشل اور ریگولر میڈیا پر سامنے آنی والی ویڈیوز سے اس تباہی کے مناظر دیکھے جا سکتے ہیں خاص طور پر اسلام آباد میں بڑے بڑے اولوں سے نہ صرف مکانوں ‘ عمارتوں کے شیشے ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر گئے فیصل مسجد کی کھڑکیوں کو نقصان پہنچا یہاں تک کہ انتہائی قیمتی ‘گاڑیوں کے ونڈ سکرین کی قیمت لاکھوں تک بتائی جاتی ہے اس کے علاوہ لاتعداد عمارتوں ‘ گھروں ‘ پلازوں کے سولر سسٹم بھی ان اولوں کے پڑنے سے ناکارہ ہو گئے ہیں اور اب ان کی بحالی پر جتنے اخراجات آئیں گے وہ الگ سے ایک مسئلہ ہے تاہم جس مارکیٹ اکانومی کی بات ہم نے کی ہے اس حوالے سے سامنے آنے والی وہ خبریں ہیں کہ ژالہ باری سے گاڑیوں کے ونڈ سکرین جتنی بڑی تعداد میں تباہ ہوئے اب ان پر اکنامکس کے ایک اور اصول ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کے مطابق مارکیٹ میں تیزی آنے کی خبریں ”متاثرین” کے لئے یقینا باعث تشویش کے زمرے میں آرہی ہیں اور سوشل میڈیا پر چلنے والی خبروں (آپ انہیں افواہیں بھی قرار دے سکتے ہیں) کے مطابق ونڈ سکرین کے ریٹ تین گنا تک ہوگئے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ جتنی بڑی تعداد میں گاڑیاں متاثر
ہوئی ہیں مارکیٹ میں اتنی تعداد میں مطلوبہ ونڈ سکرین دستیاب نہیں ہیں ‘ ظاہر ہے اب یہ کس کو معلوم تھا کہ آدھ آدھ پائو کے برف کے اولے آسمان سے گر کر اتنی بڑی تعداد میں گاڑیوں کو برباد کر دیں گے اور جب اتنی زیادہ تعداد میں مختلف برانڈز کی گاڑیاں ورکشاپس پہنچیں گی تو مارکیٹ میں ا ن کی ڈیمانڈ کے مطابق ضروری اشیاء موجود بھی ہوں گی یا نہیں اور سوشل میڈیا پر چلنے والی ایک پوسٹ میں اس حوالے سے طنز بھی سامنے آگیا ہے کہ تین گنا قیمت پر گاڑیوں کی مرمت(رنگ ‘ ڈینٹ ‘ شیشے) وغیرہ سے لوگوں کی جیبیں خالی کرنے کا فائدہ یہ بھی تو ہو گا کہ دوگنا ‘ تگنا منافع کمانے والوں کوحج اور عمرے کی ”سعادت” بھی تو حاصل کرنی ہے ‘ گویا سبحان اللہ یعنی اتنا چھا موقع پھر کب ہاتھ آئے گا؟ اور منافع کمانے والوں کی مثال تو اس میراثی جیسی ہے جس نے ایک بار اپنی خواہش کا اظہار یوں کیا کہ باسمتی چاول ہوں ‘ دیسی گائے کا دودھ ‘ ولایتی کھنڈ ہو ‘ بندہ کھیر پکائے اور سردیوں کی رات چھت پر رکھ کر سو جائے صبح اٹھے تو انگلی لگا کر وہ کھیر کھائے ۔۔۔ کسی نے پوچھا تمہارے پاس ان میں سے کیا؟ بولی”انگلی” راحت اندوری نے ایسی صورتحال کے حوالے سے کہا تھا
امیر شہر کے کچھ کاروبار یاد آئے
میں رات سوچ رہا تھا حرام کیا کیا ہے؟
ویسے یہ جو ہر سال رمضان کے مہینے میں عام عوام پر مہنگائی کا عذ اب مسلط کرکے کچھ لوگ اپنی تجوریاں بھر لیتے ہیں ‘ اس ژالہ باری نے اس کی تجوریوں میں بھی ”نقب” لگا ہی دیا ہے اسی لئے تو فارسی میں کہتے ہیں چاہ کن راچاہ در پیش
نہ ایسے بھی خدایا زہدو تقویٰ کا بھرم نکلے
فقیہان حرم کی آستینوں میں صنم نکلے

مزید پڑھیں:  پاک انڈیا جنگ بندی – سیاسی پہلو