زراعت کی اہمیت اور پاکستان

ملک کے زرعی نظام پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے ان پر سنجیدہ فکر کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، وزیراعظم نے بالکل درست کہا کہ دنیا جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے زراعت میں ترقی کر گئی جبکہ ہم قیمتی وقت ضائع کرتے رہے ہیں،امرواقعہ یہ ہے کہ قدرت نے پاکستان کونہ صرف چار موسموں سے نوازرکھاہے بلکہ پانی کے وسائل بھی فراہم کر رکھے ہیں جن کا اگر درست استعمال کیا جاتا تو آج ہم نہ صرف ہر قسم کی زرعی پیداوار سے بھرپور استفادہ کرنے کے قابل ہوتے بلکہ ملکی ضروریات پورا کرنے کے علاوہ مختلف اجناس کو برآمد کر کے قیمتی زیر مبادلہ بھی کمانے میں کامیاب ہوتے ،مگر انتہائی افسوس کیساتھ عرض کرنا پڑتا ہے کہ ہم نے ان قدرتی وسائل سے استفادہ کرنے اور ملکی ترکی میں ان کے جائز استعمال کی بجائے ان کو ضائع کرنے میں زیادہ ” محنت ” کی، جنگلات کی بے دریغ کٹائی سے موسموں کے تغیر و تبدل کے قدرتی نظام کو بربادی سے دوچار کیا، پانی کے قدرتی وسائل کو مسلسل ضائع کرنے کی وجہ سے لاکھوں ایکڑ پر پھیلی ہوئی اراضی کو بار آور ہونے کی راہ کھوئی کی ،اوپر سے مصنوعی کھاد کے کارخانوں کو کسانوں کے استحصال کیلئے استعمال کیا، جدید زرعی ٹیکنالوجی سے کوئی فائدہ اٹھانے کی بجائے صدیوں سے رائج طور طریقوں کو تبدیل کرنے سے اجتناب کیا، جبکہ دنیا کہیں کم قدرتی وسائل اور چار کی بجائے تین اور دو موسموں سے بھی بھرپور استفادہ کرتے ہوئے نئی فصلوں کی پرداخت سے ترقی کے مدارج طے کرتے ہوئے آج مثال بنی ہوئی ہے، اگرچہ ہمارے ہاں زراعت کے فروغ کیلئے دنیا کے بہترین ادارے نہ صرف موجود ہیں بلکہ ان میں مختلف فصلوں پر تحقیق بھی کی جا رہی ہے لیکن ہم پھر بھی دنیا کا مقابلہ نہیں کر پا رہے ہیں، دوسری جانب ہم نے زرخیز زمینوں کو رہائشی کالونیوں میں تبدیل کر کے وہاں کنکریٹ کے پہاڑ (پلازوں، بلڈنگوں اور گھروں کی صورت) اگانا شروع کر دئیے ہیں اور اب ہم ایک زرعی ملک ہوتے ہوئے بھی اپنے استعمال کیلئے گندم ،سبزیوں اوردالیں تک باہر کی دنیا سے درآمد کرنے پر مجبور ہیں، جو نہ صرف غلط پالیسیوں کا شاخسانہ ہے بلکہ ان کے پیچھے بدنیتی کا عنصر بھی کارفرما ہے جبکہ اس صورتحال سے ہم نے نہ پہلے کوئی سبق سیکھا نہ اب تیار ہیں، بیرونی قر ضوں تلے دب کر ہم اپنے تمام ریسورسز کو یا تو ضائع کر رہے ہیں یا انہیں ” نیلام” کر کے ان پر بیرونی تسلط کو مہمیز دے رہے ہیں، ایسی صورت میں جب تک ہم اپنی قومی پالیسیاں تبدیل کرنے اور قدرت کے دئیے ہوئے بہترین موسمی نظام اور وسائل سے استفادہ کرنے پر تیار نہیں ہوں گے جبکہ جدید زرعی ٹیکنالوجی کا استعمال مستزاد ہے، تب تک ہم زرعی شعبے میں خود کفالت کی منزل حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔

مزید پڑھیں:  ٹرمپ کا دورہ عرب دنیا