خبر تو بس اتنی ہے کہ لاہور میں پابندی کے بعد چنگ چی رکشے پشاور پہنچ گئے ہیں جس سے ٹریفک بحران کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے، تاہم اس خبر کی تہہ میں اتر کر دیکھا جائے تو پشاور پہلے کون سا ٹریفک کے حوالے سے محفوظ اور مامون شہر تھا جو اب کسی نئی مصیبت سے دوچار ہونیوالا ہے؟، حقیقت تو یہ ہے کہ اس” شہر ناپرسان ” میں پہلے ہی دیگر اضلاع میں رجسٹرڈ شدہ ہزار رکشوں کی بھرمار سے ٹریفک کا نظام درہم برہم ہے اور اس کا کوئی شافی علاج کرنے کے بارے میں اگرچہ بارہا سوچا ضرور گیا اور کچھ عملی اقدام اٹھائے بھی گئے جن میں چند برس پہلے رکشوں کو کنٹرول کرنے کیلئے ان کو دو شفٹوں میں تقسیم کرنے کی حکمت عملی کے تحت نصف کو زرد رنگ اور نصف کو سفید رنگ دیکر صبح اور رات کے اوقات میں سڑکوں پر آنے کی اجازت دی گئی مگر جس طرح دیگر شعبوں کے لوگ قوانین کی دھجیاں اڑانے کے عادی ہیں ان رکشوں والوں نے بھی چند دن اس قانون پر عمل کرنے کے بعد اسے جوتے کی نوک پر رکھ دیا اور اب وہی صورتحال ہے جو پہلی تھی ،جبکہ ایک اور حل یہ تلاش کرنے کی کوشش کی گئی کہ متعلقہ اداروں کی جانب سے وارننگ جاری کی گئی کہ ہر ضلع کے رجسٹرڈ رکشے واپس اپنے اضلاع میں چلے جائیں، مگر اس حکم کو بھی ہوا میں اڑا دیا گیا اور اب شہر میں رکشوں کی تعداد اگر کوئی گن کر دکھا دے تو اسے عوامی سطح پر شاباش دینا تو بنتا ہی ہے، دراصل اس ساری صورتحال میں ذمہ داری نہ صرف رکشہ بنانیوالی کمپنیوں پر عاید ہوتی ہے ،بلکہ آسان قسطوں پر رکشے، موٹر سائیکلیں فراہم کرنیوالوں کا بھی اس میں بہت بڑا ہاتھ ہے، جن کی وجہ سے ہر شہر میں رکشے، موٹر سائیکلیں بلکہ بینکوں کے قرضوں کے ذریعے گاڑیوں کی تعداد میں متعلقہ شہروں کی گنجائش سے زیادہ ٹرانسپورٹ روزانہ کی بنیاد پر سڑکوں پر دندنارہی ہے، اب لاہور میں پابندی لگنے کے بعد اگر وہاں سے چنگ چی رکشے ایک یلغار کی صورت ”حملہ آور” ہو گئے ہیں تو اصولاً ان کو پشاور میں رواں دواں رہنے کی اجازت(پرمٹ ) ہی نہیں ملنی چاہیے اور اگر کسی نے دی ہے تو اس کیخلاف تادیبی کارروائی ضروری ہے، جبکہ دیگر اضلاع کے رجسٹرڈ شدہ رکشوں کی پشاور میں نقل و حرکت پر سختی سے پابندی لگا دینی چاہیے اور متعلقہ حکومتی ادارے پشاور کی گنجائش کے مطابق ہی رکشوں ،موٹرسائیکلوں کی رجسٹریشن کی اجازت دیں، جب تک اس نکتے پر سوچا نہیں جائیگا اس کا کوئی مناسب حل نہیں نکل سکے گا۔
