بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان کئی مشترک حوالوں میں ایک مضبوط حوالہ دونوں کے قومی ترانوں کا خالق تھا۔ اس شخص کا نام رابندر ناتھ ٹیگور تھا جو برصغیر کا مشہور شاعرفلسفی مصوراور مصنف تھا۔ نوبل انعام یافتہ ٹیگور کا تعلق متحدہ بنگال سے تھا۔بھارت نے ٹیگور کا گیت جن من گن قومی ترانے کے طور پر اپنایا اور ڈھائی عشرے کے بعد جب بنگلہ دیش وجود میں آیا تو شیخ مجیب الرحمن نے بھی قومی ترانے کے طور پر رابندر ناتھ ٹیگور کے گیت امار سونار بانگلہ کے گیت کو قومی ترانے کے طور پر اپنایا۔بنگلہ دیش کی قوم پرست تحریک نے اپنے لئے نظریاتی طاقت اور تگ وتاز کیلئے رابندر ناتھ ٹیگور کی سوچ وفکر کو استعمال کیا۔ٹیگور کے گیت کو قومی ترانے کے طور پر اپنانا بھی اس کی ایک وجہ تھی۔اب تاریخ میں پہلی بار بنگلہ دیش اور بھارت کے تعلقات میں نہ صرف یہ کہ سردمہری پائی جارہی ہے بلکہ دونوں کے تعلقات میںکشیدگی کا عنصر بھی نمایاں ہو رہا ہے۔ اس سے کچھ ہو نہ ہو قومی ترانوں کے مشترکہ خالق کے طور پرٹیگور کی آتما بے چین اور مضطرب ضرور ہوگی۔بنکاگ میں کئی ماہ کی کشیدگی کے بعد بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر محمد یونس اور بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی کے درمیان سائیڈ لائن ملاقات تو ہوگئی مگر یوں لگتا ہے کہ مودی کی سوئی اب بھی حسینہ واجد پر اٹک گئی ہے۔بھارت کو اپنی برسوں کی سرمایہ کاری ڈوب جانے کا قلق ہے جو یونس انتظامیہ کیساتھ تعلقات کی نارملائزیشن میں مزاحم ہو کر رہ گیا ہے۔ڈاکٹر یونس اور نریندرمودی کی ملاقات پر بنگلہ دیش حکومت کے ترجمان نے تبصرے کی صورت میں یہ انکشاف کیا کہ چیف ایڈوائزر کی یہ خواہش تھی کہ وہ پہلا دور ہ بھارت کا کریں اس ضمن میں درخواست بھی بھیجی گئی مگر بھارتی حکومت نے محمد یونس کو دورے کی دعوت نہیں دی۔یہی نہیں بلکہ کئی مواقع پرمحمد یونس کیساتھ سائیڈ لائن ملاقات سے بھی گریز کیا۔بنگلہ دیش حکومت کے ترجمان کے اس بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ
نریندرمودی بنگلہ دیش کے معاملے پر بھی اسی طرح ہوا کے گھوڑے پر سوار ہیں جس طرح کا رویہ وہ برسوں سے پاکستان کیساتھ اپنائے ہوئے ہیں اور اس کو انانیت اور تکبر کے سوا اور کیا نام دیا جا سکتا ہے۔کشیدگی کے اس ماحول میں محمد یونس نے چین کا چار روزہ دورہ کیا اور دونوں ملکوں کے تعلقات کو نئی جہت دیکر نئی بلندی تک پہنچا دیا۔یہ دورہ اس قدر اہم ہے کہ اس سے جیو پولیٹکس میں نمایاں تبدیلی رونماء ہو سکتی ہے۔بنگلہ دیش میں محمد یونس کے چین کے دورے کو ایک نمایاں سفارتی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کیونکہ سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحران کا شکار بنگلہ دیش کو چینی حکام نے سفارتی اقتصادی اور دفاعی تعاون کی یقین دہانی کرادی ہے۔اس وقت چین اور بھارت کے درمیان جنوبی ایشیا کے ملکوں پر اثر رسوخ کی ایک جنگ جاری ہے۔اس جنگ میں ملکوں کیلئے دونوں کے درمیان توازن رکھنا خاصا مشکل ہوتا جارہا ہے۔اپنی بھارت نوازی کے باوجود حسینہ واجد چین کو بھی کہیں نہ کہیں راہ دینے پر مجبور تھیں۔اس کے برعکس محمد یونس کی حکومت چین کی طرف واضح جھکائو رکھتی ہے مگر بنگلہ دیش کے محل وقوع کے باعث وہ بھارت سے تعلقات کلی طور پر ختم نہیں کر سکتی۔گوادر بندرگاہ اور سی پیک کی طرح بنگلہ دیش میں بھی چین اور بھارت کے درمیان کشمکش کی ایک وجہ تیستا ندی پروجیکٹ تھا۔یہ پروجیکٹ نک کوریڈور کے قریب ہے۔یہ کوریڈور زمین کی ایک پتلی سی پٹی ہے جو سلی گوڑی میں واقع ہے اور بھارت کی شمالی مشرقی ریاستوں سیون سسٹرز کو باقی بھارت سے جوڑتی ہے۔یہ علاقہ بنگلہ دیش نیپال اور بھوٹان کے درمیان گھرا ہے۔اس پروجیکٹ پر چین کی موجودگی بھارت کیلئے ایک خوفناک تصور ہے۔اب بنگلہ دیش کے چیف ایندمنسٹریٹر نے اپنے دورے کے دوران چین کو بنگلہ دیش میں کھل کر سرمایہ کاری کی دعوت دی ہے۔محمد یونس کو چین کے خصوصی صدارتی جہاز میں ڈھاکہ سے بیجنگ لایا گیا جہاں ان کی چینی صدر ڑی جن پنگ سے ملاقات ہوئی۔دونوں ملکوں کے درمیان درجنوں معاہدات پر دستخط ہوئے۔جن کے تحت چین بنگلہ دیش کو دوبلین ڈالر سے زیادہ قرضے فراہم کرنے کیساتھ ساتھ سرمایہ کاری بھی کریگا۔ دونوں ملکوں کے درمیان فری ٹریڈ معاہدے پر بات چیت شروع کرنے پر اتفاق ہوا۔ چین نے میانمار کے دس لاکھ روہنگیا مسلمانوں کی بنگلہ دیش سے واپسی کی بنگلہ دیش حکومت کی کوششوں میں مدد دینے کا وعدہ بھی کیا۔محمد یونس نے چین کو تیستا ندی پروجیکٹ میں کام کرنیکی دعوت دیکر بھارت کو چونکا دیا ہے۔یہ وہی پروجیکٹ ہے جس کے بارے میں اقتدار سے بے دخلی سے چند ہی ماہ پہلے حسینہ واجد نے کہا تھا کہ اگرچہ چین بھی اس پروجیکٹ کے حصول میں دلچسپی رکھتا تھا مگر ہم نے اسے بھارت کو سونپنے کا فیصلہ کیا ہے۔محمد یونس نے چین کو اپنی معیشت کی بہتری کیلئے ساحلی خطے کے استعمال کی اعلانیہ پیشکش بھی کی۔محمد یونس کے الفاظ کچھ یوں تھے کہ ہندوستان کا شمال مشرقی علاقہ زمین سے
گھرا ہواہے اور اس کا دارومدار ڈھاکہ پر ہے چین کو اس سے فائدہ اْٹھانا چاہئے۔محمد یونس کے ان ریمارکس سے بھارت میں سفارتی اور دفاعی حلقوں کے کان کھڑے ہوگئے ہیں۔یہ الفاظ سیون سسٹرز کے حوالے سے بھارت کی حساسیت اور خوف کو بڑھانے کا باعث بن گئے ہیں۔ بھارت کیلئے سات ریاستوں کا معاملہ بھی حساسیت کا حامل ہے۔یہ علاقہ جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے سنگم پر واقع ہے۔نسلی تکثیریت اور تزویراتی اعتبار سے بھی یہ بھارت کیلئے خاصی اہمیت کے حامل علاقے ہیں۔انہی میں ایک ریاست ارونا چل پردیش پر چین آج بھی اپنا دعویٰ برقرار رکھے ہوئے۔چین اسے جنوبی تبت کہتا ہے ۔یہی وہ علاقہ ہے جہاں 1962 کی جنگ میں چینی فوج اندر تک داخل ہوگئی تھی۔اب بھی چینی فوج نے ارونا چل پردیش کی سرحد پر انفراسٹرکچر اور دیگر تعمیرات کا نیا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔محمد یونس کے دوہ چین کا فوری نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت نے بنگلہ دیش کیلئے سرحد پار شپمنٹ سہولت پر پابندی عاید کر دی۔اس سہولت کے ذریعے بھارت کے زمینی کسٹم سٹیشنز سے بندرگاہوں اور طیاروں کو پہنچتے ہوئے بنگلہ دیش سے دیگر ممالک کو کارگو برآمد کرنیکی اجازت دی جاتی تھی۔بنگلہ دیش کیساتھ تجارتی راہداری کی اس بندش کی وجہ چین کیساتھ ان کی بڑھتی ہوئی قربت قرار دیا جا رہا ہے۔سردست تو یہی دکھائی دے رہا ہے کہ بنگلہ دیش علاقائی سیاست میں بھارت کے مدار سے نکل کر چین کے دائرے میں داخل ہوگیا ہے یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارت اس تبدیلی کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کر سکتا۔وہ ترازو کے پلڑے کو دوبارہ اپنے حق میں جھکانے کیلئے اسی طرح عملی کوششیں کریگا جس طرح سی پیک اور گوادر سے چین کو بھگانے کیلئے ہر حربہ استعمال کیا گیااور کسی حد تک اس میں کامیابی بھی حاصل کی۔
