پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کے بعد بالآخر دورے اور ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔افغان وزیر خارجہ کی دعوت پر طویل عرصے بعد نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کی وفد کی قیادت کرتے ہوئے افغانستان کا دورہ پاک افغان تعلقات میں بہتری کی طرف ایک سنجیدہ قدم ہے جسے کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے کہ مصداق قرار دیا جا سکتا ہے وگرنہ ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ طالبان حکومت بس بھارت کی گود میں بیٹھ گئی ہے اور پاکستان سے اس کے تعلقات میں جلد بہتری کا کوئی امکان نہیں دوسری جانب سرحد پار سے ہونیوالی دہشتگردی اور خاص طور پر تحریک طالبان پاکستان کے خوارج دہشتگردوں کی افغانستان کی سرزمین میں موجودگی اختلافات کی بڑی وجہ تھی بہرحال اب جبکہ رابطے بحال ہو چکے ہیں تو مسائل کا حل اور اختلافات پر ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو بہتر طور پر سمجھنے کا موقع ملے گا اب تک جو تفصیلات سامنے آ ئی ہیں وہ روایتی بریفنگ ہی لگتی ہے جس میں واضح اشارے بھی نہیں لیکن ضروری نہیں کہ بس چند روایتی موضوعات ہی پر بات چیت ہوئی ہو دیکھا جائے تو دونوں ملکوں کے درمیان کچھ حساس نوعیت کے کچھ ایسے معاملات سامنے ہیں جن سے صرف نظر ممکن نہیں،دونوں ملکوں کے تعلقات کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں خاص طور پر ہمسایہ ملکوں کے تعلقات نہ صرف خطے میں امن و استحکام کے ضامن ہوتے ہیں بلکہ تجارتی مواقع اور علاقائی تعاون میں اضافے کے دروازے بھی کھولتے ہیں پاکستان کی جانب سے انہی دنوں بنگلہ دیش سے تعلقات میں بہتری لانے کیلئے سیکرٹری خارجہ کا دورہ بنگلہ دیش اور نائب وزیراعظم کا دورہ کابل بہتر خارجہ پالیسی کا مظہر ہے افغانستان کیساتھ جہاں ایک جانب تعلقات ہمیشہ سے پیچیدگیوں اور چیلنجز کا شکار رہے ہیں تو بطور مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش تک کا سفر بھی نہایت تکلیف دہ عمل رہا ہے اور اب عرصہ دراز بعد ہی پاکستان کو
موقع ملا ہے کہ اپنے وجود کے ایک حصے کیساتھ تعلقات کی بحالی کی بنیاد رکھے افغانستان کیساتھ پاکستان کے تعلقات کی نوعیت مثالی تو کیا تسلی بخشی اور بہتر بھی کبھی نہیں رہے افسوسناک امر تو یہ ہے کہ طالبان کی حکومت کے آنے کے بعد بجائے اس کے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت بدل جاتی الٹا ماضی کے اختلافات نہ صرف دوبارہ نمودار ہوئے بلکہ اس میں اضافہ بھی نظر آیا، ڈیورنڈ لائن کو کبھی سرحد تسلیم نہ کرنے کا اختلاف آج بھی قائم ہے حال ہی میں تور خم سرحد پر چوکی کے قیام پر تصادم کی نوبت آگئی اور مہینہ بھر سرحد بند رہی اسی طرح مہمند کے علاقے میں بھی کشیدگی بتائی جاتی ہے جس سے 1970 کی دہائی کی سرد جنگ کی یاد تازہ ہوتی ہے 2021 میں افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد امید تھی کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بہتری آئے گی اور بھارت کا اثر رسوخ کم ہوگا مگر اس کا الٹ ہوا جنوبی وزیرستان اور خاص طور پر کرم میں دہشتگرد حملوں اور اس میں سرحد پار مداخلت و منصوبہ بندی کے شواہد اور خوارج کے فتنے کا بڑا چیلنج جس میں افغانستان کے کردار سے شکایات میں اضافہ ہوا وہ عوامل تھے جس کے باعث دونوں ملکوں کے تعلقات متاثر ہوئے ستم بالائے ستم یہ کہ وقت کیساتھ ساتھ پاک افغان تعلقات میں بہتری آنے کی بجائے پیچیدگیوں میں اضافہ ہوا اور ہر گزرتے دن کیساتھ اس میں شدت آتی گئی جس میں پاکستان کی تمام تر سفارتی کوششوں کے باوجود بھی تبدیلی نہ آ سکی ان سارے عوامل پر نائب وزیراعظم کے دورے میں یقینا بات چیت ہوئی ہوگی جس کے مثبت نتائج کا انتظار ہے پاکستان اور افغانستان دونوں معاشی طور پر ایک دوسرے کیلئے بطور خاص اہم ہیں اس مد میں بھی حال ہی میں اعلیٰ سطحی ملاقات ہوئی ہے اور دونوں ممالک کے وفود اس ضمن میں پیشرفت کیلئے کوشاں ہیں اس موضوع پر نائب وزیراعظم نے بطور خاص زور دیا دونوں ممالک میں بعد از خرابی بسیار اب یہ سوچ ابھر رہی ہے کہ ہر دو ملک معاشی طور پر بے سہارہ اور کمزور ہیں جن کو اختلافات بھلا کر ایک دوسرے کا سہارا بننا چاہیے دونوں ممالک کے درمیان
تعلقات کو نئی سمت دینے کے مواقع کی کمی نہیں اگر سرحدی تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے یا پھر اس کی پرچھائیوں سے تجارتی آمد و رفت اور تعلقات کو محفوظ رکھا جائے تو یہ ایک بڑی کامیابی ہوگی پاک افغان تعلقات میں بہتری کیلئے مشترکہ مفادات پر توجہ نا گزیر ہے دونوں ممالک کو تاریخی نظریاتی اور سیاسی اختلافات کو فراموش کر کے عوامی سطح پر اعتماد کی بحالی کیلئے بطور کا خاص کام کرنے کی ضرورت ہے اس وقت دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات و تحفظات پر مبنی موضوعات میں سرحد پار سے جدید اسلحہ لیکر خوارجی دہشتگردوں کی آمد اور ان کی وہاں پر موجودگی ایک ایسا مسئلہ ہے جسے کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا افغانستان کی حکومت اور پاکستان کے درمیان اگرچہ اس معاملے پر
اختلافات موجود ہیں لیکن دوسری جانب بعض حالات و واقعات سے لگتا ہے کہ اس مد میں کچھ ایسی خاموش مفاہمت ضرور ہوئی ہے جس کے نتیجے میں خوارج کو لگام دینے کے اقدامات میں تیزی آئی ہے اور خوارج کے بڑھتے قدم رکے ہی نہیں بلکہ آئے روز ان کے جہنم واصل ہونے کی شرح میں بھی تیزی آئی ہے ،ایسا لگتا ہے کہ وہاں پر بھی اب پہلے والی صورتحال نہیں رہی یہ ایک حوصلہ افزاء امر ہے، پاکستان کی جانب سے افغان باشندوں خاص طور پر غیر دستاویزی اور غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کے انخلاء میں نرمی کا مشورہ تو نہیں دیا جا سکتا اس عمل کو جاری رکھتے ہوئے دستاویزات کے حامل افغان باشندوں خاص طور پر کاروباری طبقے اور طلباء و طالبات اور رشتے میں بندھے خواتین و حضرات کے حوالے سے نرمی اختیار کرنے اور ان کیلئے دونوں ممالک کے درمیان مشاورت سے آئندہ کا ٹھوس لائحہ عمل کی تیاری کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اس دورے اور ملاقات میں اس حوالے سے کوئی ٹھوس فیصلہ دم تحریر سامنے نہیں آیا، بس رسمی سا اعلان ہوا ہے ممکن ہے اس بار ذرائع ابلاغ میں زیادہ کچھ سامنے نہ آئے مگر اس بارے میں مفاہمت ناگزیر ہے جس کی بجا طور پر توقع رکھی جا سکتی ہے بات چیت مذاکرات اور روابط سے اختلافات میں کمی تحفظات کا خاتمہ اور بہتری کی بنیاد ناممکن نہیں اس دورے کی نتیجہ خیزی اور ٹھوس فیصلے ہی دونوں ممالک کی ضرورت ہیں جس کی توقع بے جا بھی نہیں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بہتری لانے کی ذمہ داری میں فریقین کو مزید سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تاکہ آ ئے روز پیش آ نیوالے واقعات میں کمی آ ئے تعلقات کو معمول پر لاکر ہی دونوں ممالک ترقی کے راستے پر گامزن ہو نے کے قابل ہوں گے۔
