p613 41

تہکال واقعہ، ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے تہکال تھانے میں پولیس کو نشے میں گالیاں دینے والے شخص کو برہنہ کرنے، تشدد اور اختیارات کے ناجائز اور قابل اعتراض استعمال کے واقعے کی عدالتی تحقیقات کا حکم وہ سنجیدہ قانونی راستہ تھا جسے حکومت نے اختیار کیا۔ وزیراعلیٰ اور عدالت دونوں نے آئی جی کی سرزنش کی، بدترین توہین کا نشانہ بنائے جانے والے شخص اور ان کے اہل خانہ کیلئے اس کی اہمیت ہو یا نہ ہو، اس سے ان کے دکھوں کا مداوا ہو یا نہ ہو، لیکن قانون میں اس حوالے سے جو طریقہ کار اختیار کرنے کا تقاضا تھا حکومت نے اسے اختیار کرلیا ہے۔ اس بات میں وزن ہے کہ حکومت نے عوامی دبائو پر یہ قدم اُٹھایا، پشاور ہائیکورٹ میں آئی جی نے اس واقعے کے سرخیل کا نام بھی لیا جس سے بڑے ذمہ داروں کو بچانے اور ماتحتوں کو قربانی کا بکرا بنانے کے تاثر کی نفی ہوتی ہے۔ اگر عوامی نقطہ نظر سے اس امر کا جائزہ لیا جائے اور مہذب دنیا کی مثال دی جائے تو آئی جی کو یا تو خود مستعفی ہونا چاہئے تھا یا پھر صوبائی حکومت کو اس حوالے سے وفاق کو خط لکھنے کی ضرورت تھی۔ اس واقعے میں کس عہدے اور درجے کے پولیس اہلکار ملوث تھے اس سے قطع نظر یہ پورے صوبے کی پولیس اور اصلاح کا کریڈٹ لینے والوں سبھی کیلئے باعث خجالت امر ہے۔ انسانیت کی توہین اور شرف آدم کی جو بے حرمتی کی گئی ہے اس کے پس پردہ ہاتھ لمبے اور مضبوط ہی ہوں گے وگرنہ تھانے کے درجے کے عہدیداروں سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ اس بربریت کی وہ حدیں بھی پار کر یں جو ہلاکو خان کے دور کی یاد دلائیں۔اس واقعہ کے حوالے سے پولیس کے اندر کے کچھ اعلیٰ افسران کی شدید ناپسندیدگی کا بھی عندیہ ملتا ہے، وگرنہ یہ حساس اور خفیہ ویڈیو اس طرح سے شاید ہی منظرعام پر آتا اور صوبے کی اعلیٰ شخصیت کو مبینہ طور پر جو انتہائی حساس ویڈیو مہیا کی گئی ہے اس کا امکان کم ہی تھا۔ بہرحال اس واقعے کی بنیاد پر اگرچہ پورے صوبے کی پولیس فورس کیخلاف حقارت ونفرت کی فضا ہے لیکن جذبات کی بجائے حقیقت پسندانہ رویہ اپنایا جائے تو چند افراد کے اس فعل کو پوری پولیس فورس کا چہرہ بنادینا درست نہیں۔ جہاں تک عدالتی انکوائری کا تعلق ہے، ہائیکورٹ کے جج کی نگرانی وموجودگی میں رپورٹ کی اصلیت کا سوال نہیں اُٹھتا لیکن رپورٹ کی سفارشات پر حکومت کی جانب سے عملدرآمد اور ذمہ داروں کو سزا حکومت کا امتحان ہوگا، اس حوالے سے قبل ازیں کسی منفی رائے کا اظہار مناسب نہیں۔ توقع کی جانی چاہئے کہ حکومت روایتی کردار سے ہٹ کر رپورٹ کی سفارشات پر عمل درآمد کروائے گی۔ جذبات اپنی جگہ حکومت کی مساعی سے قطع نظر عدالتی تحقیقات اور بعد ازاں عدالتی کارروائی کے دوران اس خاندان کا دبائو میں آنا، ساتھ ہی ساتھ اس مقدمے میں انصاف کے حصول کیلئے درکار وسائل وقانونی فہم بھی اہمیت کا حامل معاملہ ہے۔ اس ضمن میں سول سوسائٹی اور وکلاء کا تعاون سڑکوں پر جذبات کے اظہار سے زیادہ ضروری اور سنجیدہ معاملہ ہے۔کوشش اس امر کی ہونی چاہئے کہ پولیس کو اس کی ذمہ داری سمجھائی جائے، اس کی تربیت کا اہتمام کیا جائے، قانون کو سمجھنے قانون کے مطابق کام کرنے اور قانون پر عملدرآمد کی پختہ مشق کرائی جائے اور اس عمل کی مسلسل نگرانی کی جائے کہ پولیس قانون کی پابند رہے۔ پولیس کو اس امر کا احساس دلایا جائے کہ سب سے پہلے وہ قانون کا پابند ہے اور جو بھی صورت ہو جذبات کو ایک طرف رکھ کر قانون کے تقاضوں کو پورا ہونا چاہئے۔ قانون شہریوں ہی پر لاگو نہیں ہو تا، پولیس پر بھی لاگو ہوتا ہے جو بھی پولیس والا وردی کے نشے میں دیکھا جائے، اس کے نہ اُترنے والے نشے کو اُتارنے کا بندوبست کیا جائے۔ پولیس جب تک بااثر کے سامنے بھیگی بلی اور کمزور کیلئے دہشت کی علامت رہے گی اس وقت تک اس کے حوالے سے معاشرہ کی رائے تبدیل نہیں ہوگی۔ خواہ حکمران اسے جو بھی نام دیں اور جس نام سے پکاریں، پولیس کا وقار خودپولیس حکام اور اہلکاروں کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ جمہور کی رائے نقارہ خدا ہوتی ہے، یہ رائے نہ ایک دن میں قائم ہوتی ہے اور نہ ہی تبدیل ہوتی ہے اور نہ ہوگی۔

مزید پڑھیں:  ڈیڑھ اینٹ کی مسجد