پولیو مہم کی ناکامی

وطن عزیز میں تمام تر کوششوں کے باوجود پولیو پر قابو پانے میں ناکامی سے اس مہم کے موثر ہونے اور مہم کے دوران ہونے والی بے قاعدگیوں ‘ غفلت اور بے ضابطگیوں کی واضح نشاندہی ہوتی ہے جس میں کمی آنے کی بجائے اضافہ ہونے لگا ہے جو صوبے میں پولیو کے خاتمے اور اس کی مہم کی کامیابی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے خیبر پختونخوا کے اضلاع میں صورتحال اپنی جگہ صرف پشاور شہر میںبچوں کی بہت بڑی تعداد قطرے پلانے سے محروم رہ جاتے ہیں جبکہ مضافات اور اضلاع میں کئی بڑی اور پیچیدہ وجوہات کے باعث مشکلات سے صرف نظر ممکن نہیں اس کے باوجود اس مد میں جو دعوے کئے جاتے ہیں اس کی بجائے اگر مہم کی کامیابی پر صلاحیتیں بروئے کار لائی جائیں تو خاصی بہتری کی امیدبن سکتی ہے امر واقع یہ ہے کہ پاکستان اب بھی ان دو ممالک میں سے ایک ہے جہاں پولیو کا مرض ہے۔ اس سال اب تک چھ سے زائد کیس رپورٹ ہوئے،جبکہ گزشتہ سال74کیسز سامنے آئے تھے جس سے یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ پولیو کا وائرس ختم نہیں ہوا ہے ایسے میں سخت نگرانی سال بھر جاری رہنی چاہیے اور ایسے اقدامات پر توجہ کی ضرورت ہے جس کے بارے میں اب تک غفلت کا ارتکاب دیکھا گیا ہے ویکسین کولڈ چینز کی ڈیجیٹل ٹریکنگ کو بھی تمام اضلاع میں بڑھایا جانا چاہیے۔ مزید یہ کہ پولیو ٹیموں کو سرزنش کے خوف کے بغیر ہر انکار کی اطلاع دینے کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ ہچکچاہٹ کا شکار خاندانوں کے ساتھ باعزت، ڈیٹا پر مبنی مکالمہ کلیدی حیثیت رکھتا ہے جس پر مزید توجہ دے کر قائل کرنے کے عمل کو بڑھایا جا سکتا ہے اس پر بطور خاص توجہ ہونی چاہئے۔ سپروائزرز کو فالو اپ کو یقینی بنانا چاہیے اور ضرورت پڑنے پر متعدد دورے کرنا چاہیے خاص طور پر زیادہ خطرے والے علاقوں میں، کسی بھی گھرانے کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ وزیر اعظم کی ہدایات اور صوبائی کاوشیں اعلی سطحی عزم کی نشاندہی کرتی ہیں۔ لیکن اس عزم کو روزانہ عمل میں لانا ضروری ہے۔ یہاں تک کہ ایک بچہ بھی چھوٹ جانا تمام بچوں کے لیے خطرہ ہے اس لئے کوئی کسر اٹھانہ رکھی جائے۔

مزید پڑھیں:  کانگو وائرس: مینا /لالی پرند ہ کانگو سے بچائو کا سبب،مگر کیسے؟