دنیا کے مختلف ملکوںمیں ریستوران اور دیگر ضروریات زندگی کی اشیاء کا گمنام ضرورت مندوں کو عطیہ کرنے کے لئے ادائیگی ایک ایسا قابل قدر سلسلہ ہے کہ رشک آتا ہے یہ عمل اس قدر احسن انداز میں انجام دیا جاتا ہے کہ اس حدیث پاک پر حرفاً حرفاً عمل ہوتا ہے کہ ایک ہاتھ سے دو تو دوسرے ہاتھ کو پتہ نہ چلے ۔ اس روایت میں ہو بہو ایسا ہوتا ہے کسی نے کافی کا ایک کپ لیا اور دو کی ادائیگی کر دی ایک کپ اپنے لئے اور ایک کپ کی ادائیگی اس نامعلوم ضرورت مند کے لئے جس کے نصیب میں کافی کادوسرا کپ لکھا ہو گااسی طرح خوراک کا ایک ڈبہ اور بہت کچھ یوں معاشرے میں پیشہ ورانہ طور پر گداگری اختیار کرنے کے بناء لوگوں کو باعزت طور پر جینے کے مواقع میسر آتے ہیں ایران میں دیوار مہربانی شروع ہوئی تو اس کی دیکھا دیکھی ہمارے ہاں بھی ایسا کرنے کی کوشش نظر آئی لوگ تندور میں روٹی لینے جاتے اور ایک ا ضافی روٹی کی ادائیگی کرکے آتے مگر منظم طریقے سے اس کو ایمانداری کے ساتھ نبھانے میں کوتاہی کے باعث لوگوں نے مایوس ہو کر ایسا کرنا بند کر دیا اب وہ باہر بیٹھے کسی شخص یا خاتون کو دس بیس روپے دے آتے ہیں مگر اس کا علم نہیں ہوتا کہ یہ رقم حقیقی ضرورت مند کو دی گئی یا پیشہ ور گدا گرکی جیب میں چلی گئی وطن عزیز میں مخیر حضرات اور ایثار کا مظاہرہ کرنے والوں کی کمی نہیں ملک میں لاکھوں مدارس و مساجد عطیات پرہی چلتے ہیں اور گداگروں کی بھی زبردست کمائی ہو جاتی ہے ۔ گداگری آئی ٹی سے بڑی انڈسٹری اور ذریعہ آمدن بتائی جاتی ہے گدا گر عموماً بڑے خفیہ طریقے سے دیہاڑی کے نوٹوں کو ترتیب دے کر گن لیتے ہیں مگر کبھی کبھار نظر پڑ ہی جاتی ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی روز کی کمائی اپنی دیہاڑی سے کہیں زیادہ ہے اسلام میں جہاں خیرات و صدقات کی قدم قدم پر تعلیم ملتی ہے وہاں ہاتھ پھیلانا اور گداگری اختیار کرنا نہایت قبیح اور ناپسندیدہ فعل گردانا گا ہے اور سخت وعید آئی ہے مگر کون سنے خاص طور پر مساجد میں رمضان المبارک میں بالخصوص اور تقریباً ہر نمازکے بعد بالعموم ضرورت مندوں اور چندہ مانگنے والوں کی روک تھام نہ کرنے پر علماء کرام آئمہ حضرات کا کردار بھی قابل گرفت ہے مگر ایک ایسا عمومی معاشرتی کلچر بن چکا ہے جس کی روک تھام پر توجہ درکنار اب اسے برا بھی شاید ہی سمجھا جاتا ہے ملک میں انسداد گداگری کے قوانین موجود ہیں مگر اس پر عملدرآمد کرنے کے ذمہ دار ہی لگتا ہے گداگری کے ٹھیکے دینے لگے ہیں اور اپنا حصہ وصول کرکے خاموشی ا ختیار کر رکھی ہے ۔ خیبر پختونخوا میں اس کے لئے سخت قوانین کی تیاری کی شنید ہے یہ اپنی جگہ کم از کم موجودہ قوانین پر عملدرآمد تو کرایئے صوبائی دارالحکومت میں بی آر ٹی کے سٹیشنز کے آمدورفت کے راستے گداگروں کا وہ مسکن بن چکے ہیں جن کے ٹھیکے خفیہ ٹینڈروں کے ذریعے دیئے جا رہے ہوں گے ان کے خلاف نہ تو بی آر ٹی سٹیشنز کا عملہ متحرک ہوتا ہے نہ سوشل ویلفیئر والوں کو اس کی فکر ہے پولیس سے تو توقع ہی نہیں ایسا لگتا ہے کہ ان لوگوں کی مکمل سرپرستی ہو رہی ہے یہ کہنے کی گنجائش ہے کہ لوگوں کا پیسہ ہے وہ چاہے جس کو دیں جس کو نہ دیں درست بات ہے لیکن لوگ کسی غیر مستحق پیشہ ور گداگر کو بھیک نہیں دینا چاہئے ان کے لئے یہ تعین مشکل ہے کہ راستے میں ہاتھ پھیلا یا ہوا کون مستحق ہے اور کون ٹھیکیدار کا آدمی دیوارمہربانی کی بات ادھوری رہ گئی لوگوں نے دیوار پر لکھا دیکھ کر استعمال شدہ مگر اچھی حالت کے کپڑے اور لباس لٹکانا شروع کئے مگر اسے نشے کے عادی افراد اور پیشہ ور گدا گروں نے مستحقین کے ہاتھ نہ لگنے دیا تو یہ دیکھ کر لوگوں کو اس سے بھی ہاتھ کھینچنا پڑا ۔ لوگ فلاحی تنظیموں کو چندہ دیتے ہیں مگر کم ہی تنظیمیں امانت داری کے ساتھ مستحقین اور مختلف واقعات کے متاثرین تک ان کی امانت پہنچانے کی ذمہ داری پوری کرتے ہیںکتنی بھی شفافیت کا خیال رکھا جائے انفرادی بدعنوانی کی گنجائش رہتی ہے اپنے معاشرے کو اسلامی معاشرہ گرداننے کے باجود بدقسمتی سے اس کی توقع نہیں کی جا سکتی کہ آپ نے کافی کے کپ اور سالن کے ایک پلیٹ دو روٹیوں کے لئے ادائیگی کر دی اور یقین کر لیا کہ کسی مستحق ہی کے نصیب میں آیا ہو گا کسی اور کی جیب میں نہیں گئی ہو گی جب تک عوامی سطح کی دیانتداری قائم نہیں ہو گی اجتماعی طور پر ایمانداری کو رواج نہیں دیا جائے گا ہمارے معاشرتی حالات میں بہتری نہیں آسکتی یہ جو راہزنی کی وارداتوں میں روز بروز تیزی آرہی ہے ہر نوجوان راہزن نہیں ہوتا کہ اسلحہ لے کر موبائل اور موٹر سائیکل چھیننے نکل جائے بہت سے ایسے بھی ہوں گے جن کو بے روزگاری کے باعث گھر میں بچوں کی بھوک سے تڑپنا برداشت نہیں ہوتا ہو گا اور ان کو سوائے بزور اسلحہ کچھ لینے کے اور کچھ سجھائی نہ دیتا ہو گا بھوک بڑی ظالم ہوتی ہے اس کو مٹانے کے لئے جان ہتھیلی پر اور عزت کو دائو پر لگانا پڑتا ہے آج کل کتنی عزتیں اور کتنوں کی عزت نفس قدم قدم پر مجبوریوں کے باعث دائو پر لگتی ہے کبھی ان کی کہانی سنیں تو کلیجہ منہ کو آئے گا او ر خود کو گنہگار اور ان کو معصوم قرار دینے کو جی کرے گا اس معاشرے کی اصلاح کسی اور کی نہیں میری آپ کی اور ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے دین کا بھی یہی درس ہے یہاں تو کفر کے معاشروں میں بھی فلاح نظر آتی ہے ایک ہم ہیں کہ زمین میں دھنسے جانے کے کاموں میں مصروف ہیںاس طرح کے معاشروں میں ہی عذاب نازل ہوا کرتے ہیں یہ زلزلے یہ بے وقت اور بے موسم کی بارشیں اور برفباری پہلے آسمان سے پتھر برستے تھے پتھروں کی طرح سخت اور بڑے بڑے اب اولے گرتے ہیں قدرت متوجہ کرتے کرتے اشاروں کو سنجیدہ اور سخت تر کرتی جارہی ہے مگر افسوس ہم پھر بھی سمجھنے کو تیار ہی نہیں اور بس۔
