ایشیا میں عمومی طور پر مغرب اور امریکہ کے مقابلے میں ترقی بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے ۔ مگر چند ایک ایسے ممالک بھی ہیں جو کسی بھی طرح یورپ اور امریکہ سے ترقی میں پیچھے نہیں ہیں ۔ جاپان ،سنگاپور چین اور جنوبی کوریا ان ممالک میں سے ہیں جہاں ترقی کی رفتار بہت تیز ہے ۔ کوریا کی آبادی کم ہے لیکن جس تیزی کے ساتھ کوریا نے ترقی کی ہے اس کی مثال مشکل سے ہی ملے گی ۔ جنوبی کوریا میں ہر فرد انتہائی خوشحال اور آسودہ ہے اور انہیں دنیا کی ہر سہولت اور اعلیٰ ترین تعلیم کی سہولت حاصل ہے ۔ جنوبی کوریا کی ترقی میں عیسائی مشنریوں کا بڑا ہاتھ ہے خصوصاً وہاں کی تعلیم میں ان کا بڑا عمل دخل ہے جنوبی کوریا میں آپ کو ہر شہر اور ہر قصبے میں ان مشنریوں کی بنائی ہوئی یونیورسٹیاں اور تعلیمی ادارے ملیں گے اور ہر شہر میں ان کے بنائے ہوئے اعلیٰ ترین معیار کے خیراتی ہسپتال آپ کو ملیں گے ۔ ساٹھ کی دہائی تک جنوبی کوریا بھی بہت زیادہ مفلوک الحالی کا شکار تھا ۔ چین ، ترکی اور جنوبی کوریا میں پاکستانیوں کی بہت زیادہ عزت کی جاتی ہے ۔ جنوبی کوریا میں پاکستانیوں کی عزت کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان نے ساٹھ کی دہائی میں جنوبی کوریا کو قرضہ دیا تھا اور پاکستان نے اس سے بڑھکر ان کی مدد کی تھی ۔ڈاکٹر محبوب الحق نے اپنا پانچ سالہ منصوبہ ان کے ساتھ شیئر کیا تھا اور کراچی سٹیل ملز کی طرز پر ان کو پوہانگ سٹی میں ایک بڑی سٹیل لگانے میں مکمل مدد کی تھی یہاں تک کہ کراچی سٹیل مل کے تمام بلیوپرنٹس انہیں مہیا کردئیے تھے اور ان کو ماہر افرادی قوت بھی فراہم کی تھی ۔پاسکو نے وہاں ایک میوزیم بنایا ہے جب آپ اس میں داخل ہوتے ہیں تو سب سے پہلے پاکستان کا جھنڈا اور پھر ڈاکٹر محبوب الحق کی تصویر لگی اور اس قرضے کی چیک کی تصویر بھی ہے جو پاکستان نے ان کو دیا تھا ۔پاسکو سٹیل مل جنوبی کوریا کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوئی اور آج یہ دنیا کی دوسری بڑی سٹیل مل ہے یاد رہے کہ جنوبی کوریا میں خام سٹیل کہیں بھی دستیاب نہیں جنوبی کوریا خام سٹیل دنیا کے مختلف حصوں سے درآمد کرتا ہے ۔ آج اس
اسٹیل کی آمدنی پاکستان کی جی ڈی پی کے برابر ہے ۔ سیول جو جنوبی کوریا کا دارالخلافہ ہے وہاں ایک بہت بڑے رقبے پر امریکی فوجی چھاونی ہے جس میں ہزاروں کی تعداد میں امریکی فوجی رہتے ہیں ۔ اس کے علاوہ بھی دیگر علاقوں جیسے پی یون ٹیگ وغیر ہ میں بھی امریکی فوجی اڈے ہیں ۔ لیکن جنوبی کوریا 1987 سے اپنے تمام فیصلے خود کرتا ہے اور وہاں ایک ایسی قوم کو تیار کیا گیا ہے جو انتہائی جفا کش ، ایماندار اور محنتی ہے ۔یہ کوریائی باشندے صبح چھ بجے اپنے کاموں پر نکلتے ہیں اور شام چھے بجے تک مسلسل کام کرتے ہیں ۔ میں اور ہمارے محترم پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب جو ان دنوں پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے جنوبی کوریا گئے ہوئے تھے ۔ کوریا کے لوگوں نے ہماری خدمت میں کوئی کمی نہیں آنے دی ایک دن مجھے قبلہ صاحب نے کہا کہ کوریائی کمال کے مہمان نواز ہیں لیکن ناشتے کے معاملے میں کچھ کمزور ہیں ۔ میں چونکہ پہلے بھی گیا ہوا تھا تو میں نے قبلہ صاحب کو کہا کہ سر یہ ناشتے کے معاملے میں کمزور نہیں ہیں یہ صبح پانچ بجے جاگ کر ناشتہ کرتے ہیں اور کاموں پر چلے جاتے ہیں جبکہ ہم صبح اٹھ بجے جاگتے ہیں اس لیے وہ ناشتہ کا سامان پہلے سے ہمارے کمروں کے فریجوں میںرکھوا دیتے ہیں ۔ اس پر مجھے آج بھی یاد کہ قبلہ صاحب نے کہا تھا وہ اقوام جو صبح سویرے جاگتے ہیں ہمیشہ ترقی کرتے ہیں ۔قبلہ صاحب صاحب علم ہیں انہوں نے مجھے ایسے بیسیوں ملکوں کے نام
گنوائے جن کے باشندے سحر خیز ہیں اور وہ ترقی کے معراج پر ہیں ۔ ساتھ قبلہ صاحب کا یہ موازنہ کہ جو لوگ رات دو بجے سوئیں اور ان کی صبح دن دو بجے ہو وہ خواب تو دیکھ سکتے ہیں مگر ترقی ان کی بس کی بات نہیں ہے ۔ جنوبی کوریا میں تعلیمی ادارے اتنے اچھے ہیں کہ یہاں اس کا بیان ممکن نہیں ہے ہمارے تیس کے قریب طلبا سمسٹر ایکسچینج میں وہاں گئے تھے جب ایک ماہ بعد میں ان سے ملنے گیا اور ان سے پوچھا کہ یہاں کی تعلیم کیسی ہے اور پاکستان کے ساتھ اس کا موازنہ کریں تو سب نے یک زبان ہوکر کہا کہ پاکستان میں جتنا کچھ ہم نے چار برسوں میں سیکھا ہے اس سے زیادہ یہاں ایک ہفتے میں سیکھا اور ساتھ ہی طلبا نے وہاں کی نظام تعلیم کی خوبیاںبیان کرنا شروع کردیں ۔ سب سے بڑا فرق ان کی ہماری تعلیم میں یہ ہے کہ وہاں عملی تعلیم دی جاتی ہے اور ہمارے ہاں پرانے قصے سنائے جاتے ہیں ۔ دوسرا بڑا فرق یہ ہے کہ وہاں ہر برس نصاب ضرورت اور تقاضوں کے حساب سے بدلا جاتا ہے اور وہاں کے اساتذہ مسلسل تربیت کے عمل سے گزرتے ہیںجبکہ ہمارے ہاں جو ستر برس پہلے تھاوہ اب بھی رائج ہے ۔ جنوبی کوریا میں ہر جگہ انجینئرنگ کی تعلیم دی جاتی ہے ان کی انجینئرنگ مکمل طور پر عملی ماڈل پر ہے اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ ملک تعمیر کرنا اور صنعتی اور فنی ترقی کے لیے لازمی ہے کہ انجینئرنگ کے شعبہ میں طلبا مہارت پیدا کریں پھر دوران تعلیم ہی ان طلبا کو عملی طور پر بڑے بڑے منصوبوں میں شریک کیا جاتا ہے یوں ان کی تربیت ہوجاتی ہے ۔ ان کی پاس زمین کی کمی تھی تو انہوں نے سمندر میں مٹی بھر کر دنیا کا سب سے بہترین ائیر پورٹ اینچن ائیرپورٹ تعمیر کیا ہے جس میں وہ سہولیات ہیں کہ پاکستان انڈیا والوں نے شاید اپنے سپنوں میں بھی نہیں دیکھے ۔ جنوبی کوریا اپنی انواع و اقسام خوراکوں کی وجہ سے بھی بہت مشہور ہے ۔ جنوبی کوریا میں تہذیب اپنی انتہاؤں پر
وہاں سب ایک دوسرے کی عزت کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے انتہائی آداب سے پیش آتے ہیں ۔وہاں کے ہر طالب علم کے لیے لازمی ہے کہ وہ دن میں دو گھنٹے کم از کم سوشل سروس دے یعنی لوگوں کی خدمت کرے ۔ صفائی اگر نصف ایمان ہے تو یہ نصف ایمان کوریا کے تمام باشندوں کو حاصل ہے ۔ کوریا میں خاندانی نظام بہت زیادہ پائیدار ہے والدین بچوں کو اپنے ساتھ بھی رکھتے ہیں ان کی تربیت بھی کرتے ہیں اور انہیں ذمہ دار شہری بھی بناتے ہیں ۔ کوریا کی ترقی ٹیکنالوجی کے حوالے سے ایشیاء کے دیگر تمام ممالک سے کہیں زیادہ ہے ۔ جنوبی کوریا سمسنگ ، ایل جی ، کیا، ہونڈائی اور ہزاروں دیگر ٹیکنالوجی کمپنیوں کا مرکز ہے ۔دنیا کی بیٹری سازی کا ایک بہت بڑا حصہ جنوبی کوریا میں ہے ۔ اس وقت دنیا کے پائیدار مصنوعات کی فہرست میں ہزاروں جنوبی کوریائی مصنوعات شامل ہیں ۔دنیا کا تیز ترین انٹر نیٹ نیٹ ورک بھی جنوبی کوریا میں ہے ساتھ ہی جنوبی کوریا فنون لطیفہ میں اپنی الگ پہچان رکھتا ہے ۔ فلموں ، موسیقی اور دیگر فنون کے لاکھوں ماہرین اس ملک میں بستے ہیں اور تفریحی انڈسٹری سے لاکھوں لوگ وابستہ ہیں ۔ اپنے بچوں کو چین اور دیگر وسطی ایشیائی ملکوں میں اعلیٰ تعلیم کے لیے نہ بھیجیں اس لیے وہاں سب فراڈ ہے اگر بچوں کو واقعی اعلیٰ تعلیم دلوانی ہوتو انہیں جنوبی کوریا بھیجیں وہاں اتنے زیادہ اسکالرشپس دستیاب ہیں کہ ایک برس کے اندر اندر آپ کے بچے وہاں اسکالرشپس پر منتقل ہوجائیں گے ۔ اور وہاں کی اعلیٰ تعلیم اتنا اچھی ہے کہ اب یورپ اور امریکہ سے بھی وہاں لوگ پڑھنے آتے ہیں ۔ وہاں آپ کے بچے اعلیٰ تعلیم کے ساتھ اچھے اخلاق اور محنت سیکھیں گے جس کی توقع آپ کسی بھی دوسرے ملک کے نظام تعلیم سے نہیں کرسکتے۔ جنوبی کوریا تعلیم اور محنت کرکے خوشحال اور کامیاب بنا اور شمالی کوریا جنگوں اور جہالت کو اپنا کر تباہ حال ہوگیا ہے ۔ اپنے ملک کے ساتھ آپ خود موازنہ کر لیں کہ ہم کیا ہیںاور کیا بن رہے ہیں ۔
