1 165

خواتین وحضرات! سب اچھا ہے

ڈالر صرف 90پیسے مہنگا ہوا ہے، کورونا سے گزشتہ روز 105 افراد جاں بحق ہوئے، مریضوں کی تعداد ایک لاکھ 85ہزار سے تجاوز کر چکی ہے، حکومت کا اب بھی وہی مؤقف ہے کہ اپوزیشن چاہتی ہے کہ لاک ڈاؤن ہو اور لوگ بھوک سے مرنے لگ جائیں۔ تھوڑا رک کر اس بات پر غور کر لیجئے کہ کیا سمارٹ لاک ڈاؤن والے علاقوں (یہ ملک کے بیس بڑے شہروں میں ہیں) میں قواعد وضوابط پر عمل ہو رہا ہے؟ اس سستے قسم کے سمارٹ لاک ڈاؤن کا فائدہ ہوگا یا نقصان؟ غور کر لیجئے زیادہ مناسب یہی ہے کیونکہ مردان کے رحمت اللہ خان کا مؤقف ہے کہ ”کالم نویس کورونا سے نمٹنے کیلئے لاک ڈاؤن کی حساس حمایت کر کے لادین قوتوں کی حمایت کر رہا ہے جو چاہتی ہیں کہ عبادت گاہیں ویران اور عشرت کدے آباد ہو جائیں” اپنے اس قاری کی باکمال معلومات پر تحسین ناکرنا ناشکرہ پن ہوگا۔ کاش وہ ان عشرت کدوں کی فہرست بمعہ ایڈریس بھجوا دیتے جنہیں یہ کالم نویس آباد وشاد کروانا چاہتا ہے۔ کیا ستم ہے کہ جب رحمت اللہ خان جیسے جینئس لوگ اور مجھ جیسے عاجز نہیں ہوں گے تو دنیا کا کیا بنے گا، مجھے تو سوچ کر ہی پریشانی ہو رہی ہے۔ خیبر پختونخوا کی کابینہ میں ایک ہی وزیر سے دیرینہ شناسائی ہے، وہ ہیں عزیزم شوکت علی یوسفزئی، دل کرتا ہے کہ ان سے درخواست کروں کہ وہ رحمت اللہ خان کو تلاش کریں اور وفاق میں امور انسداد کورونا کا مشیر لگوا دیں۔ خیر ہم آگے بڑھتے ہیں، منگل کے روز اسلام آباد کا موسم خوشگوار بلکہ شاعروں کی زبان میں خاصا عاشقانہ تھا، پھر بھی قومی اسمبلی اور وفاقی کابینہ کے اجلاسوں میں ماحول گرماگرم رہا۔ وفاقی کابینہ کے حوالے سے قیامت کی کہانیاں سنانے والے ”ماہر” کی باتوں اور دعوؤں پر یقین نہ بھی کیا جائے تو بھی جو اطلاعات اونچی دیواریں پھاند کر کوبکو پھیلیں ان سے حالات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے، البتہ جی کا جانا ٹھہر گیا کی ڈھولک پر بلاوجہ تھکنے کی ضرورت نہیں۔
قومی اسمبلی میں قادر پٹیل اور عطاء اللہ خان کے ”معرکہ” پر سپیکر اسد قیصر برہم ہیں۔ وہ دونوں ارکان کی تقاریر کی ویڈیو دیکھ کر کارروائی کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن سنجیدہ حلقوں کا خیال ہے کہ اگر سپیکر اسد قیصر ان ارکان سے پہلے ڈپٹی سپیکر کے کچھ معاملات کا جائزہ لینے کیساتھ اس بات کی تقلید کروا لیں کہ جب ایوان کی صدارت ڈپٹی سپیکر کر رہے ہوتے ہیں تو اخلاقیات کا جنازہ کیوں نکلتا ہے، تو جناب سپیکر کو بہت سارے اقدامات کرنے میں سہولت رہے گی۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ اقدامات قادر پٹیل اور عطاء اللہ خان سے کچھ آگے بڑھائے جائیں، ایک دو وزراء بھی اگر ان کی زد میں آتے ہیں تو پرواہ نہ کی جائے۔ منتخب پارلیمانی اداروں اور ارکان سے رائے دہندگان یہ توقع کرتے رکھتے ہیں کہ وہ ایوانوں کے اجلاسوں میں اپنے حلقہ ہائے انتخاب کیساتھ مجموعی طور پر ملک بھر کے مسائل اور دیگر امور کے علاوہ قانون سازی پر توجہ دیں گے، افسوس کہ پچھلے دو برسوں سے ہو اس کے برعکس رہا ہے۔ اس برعکس کے حقیقی ذمہ دار تلاش کئے اور اقدام اُٹھائے بغیر وقتی جذبات پر لیا گیا کوئی بھی فیصلہ مسائل پیدا کرے گا۔ یہ امر بہرطور تلخ حقیقت کی طرح سبھی پر عیاں ہے کہ منتخب ایوانوں میں اب وہی زبان بولی جارہی ہے جو پچھلے دس برسوں سے ملک کی سیاست کا ”حقیقی اصل” ہے۔ یہ اوئے توئے، توتڑاخ سیاست کے گلی کوچوں اور ڈی چوک سے منتخب ایوانوں تک پہنچی ہے۔ ہم سبھی تقریباً مراد سعید، قادر پٹیل، عطاء اللہ وغیرہ ہیں بس موقع ملنے کی دیر ہے پھر کوئی ہماری گفتار دیکھے تو۔
قمری مہینوں کے چاند پر پھڈے کرتے وفاقی وزیر فواد چوہدری نے وائس آف امریکہ کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں نواں کٹا کھول دیا۔ ان کے انٹرویو کے بعض حصوں کو مختصر وقت میں جتنی شہرت ملی اتنی فواد چودھری کو ساری سیاسی عمر میں نہیں مل سکی۔ غور کرنے والی جی ہاں لڑنے جھگڑنے، چودھری پر سوقیانہ جملے اُچھالنے کی بجائے بہت ضروری ہے کہ جن مسائل کی اس نے نشاندہی کی ہے ان مسائل کے حل اور تحفظات کو دور کرنے کیلئے اقدامات اُٹھائے جائیں اور مختلف ریاستی ادارے اس امر کو یقینی بنائیں کہ دستوری حدود سے تجاوز کر کے دوسرے کا کام نہیں سنبھال لیں گے۔ فواد حسین چودھری کے اس انٹرویو سے موسمی خواہشات کاشت کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ کچھ نہیں ہونے والا۔ رہا وزیراعظم بننے کیلئے خواہش پالنے والوںکا معاملہ تو وہ یکسر الگ ہے، فواد چودھری اس دوڑ میں شامل نہیں چلیں چھوڑیں ہم ابتدائی سطور والی باتوں کو آگے بڑھاتے ہیں۔ ڈالر168روپے کا ہے، سونا فی تولہ ایک لاکھ تین ہزار روپے، بیرونی قرضوں میں 1450ارب کا اضافہ ڈالر مہنگا ہونے سے ہوا، یہ دنیا بھر سے پکڑ پکڑا کر لائے اور تحفے میں ملے ماہرین معاشیات آخر کس مرض کی دوا ہیں، کیوں نہیں وہ ایسے ٹھوس اقدامات کرتے کہ روپے کی قدر مستحکم ہو۔ کیا وزیراعظم نے مہینہ بھر قبل وفاقی کابینہ کے اجلاس میں نہیں کہا تھا کہ ایسے اقدامات کریں جن سے ڈالر 140روپے کا ہو جائے؟ مہربانی ہوگی اگر وزیراعظم ہی ان ماہرین معاشیات کی کلاس لیں اور دریافت کریں کہ ان کی ہدایات پر عمل کرنے میں امر مانع کیا تھا اور ہے؟۔

مزید پڑھیں:  ''ظلم دیکھ کر چپ رہنا بھی ظلم ہے''