5 114

سوشل میڈیا اور شعر وشاعری

سوشل میڈیا کی دنیا بھی عجیب ہے’ خاص طور پر آج کل یہ ایسے لوگوں کے ہتھے چڑھی ہوئی ہے کہ ان کی پوسٹیں دیکھ اور پڑھ کر سر پیٹ لینے کو دل چاہتا ہے۔ ایک تو (انتہائی معذرت کیساتھ عرض ہے کہ) ہر چوتھا پانچواں شخص خود ادیب’ شاعر بنا پھرتا ہے اور شاعری کی ٹانگیں بلکہ پسلیاں توڑنے کی کوشش کرتا ہے’ اوپر سے ان کیساتھ فرینڈز لسٹ میں ان لوگوں کی بھی بھرمار ہوتی ہے جو ان کی بے سر وپا شاعری (بہ زعم خود یہ اسے شاعری ہی کہتے ہیں) پر ایسے ایسے تبصرے کرتے ہیں کہ انہیں یقین ہونے لگتا ہے کہ انہوں نے واقعی کمال کی شاعری کی ہے’ تبصرے نہ بھی کریں تو انہیں اتنے لائیکس مل جاتے ہیں کہ انہیں اپنے شاعر ہونے کا پکا پکا یقین ہو جاتا ہے جبکہ اصل اور مقتدر شعرائے کرام کو ان کی ”خرافاتی شاعری” دیکھ کر سوچنا پڑتا ہے کہ انہوں نے اپنی غزلیں’ نظمیں پوسٹ کرکے کہیں کوئی غلطی تو نہیں کرلی۔ یہ تو خیر ایک طبقہ ہے جو شاعر ہونے کے زعم میں مبتلا ہے اور بے بحر’ بے وزن اور بعض اوقات بے مقصد شاعری (اگر اسے شاعری مان لیا جائے) فیس بک’ یوٹیوب’ واٹس ایپ پر ڈال کر یہ سمجھتا ہے کہ ادب کی خدمت کر رہا ہے جبکہ ایک اور طبقہ بھی ہے جو مشہور اور نابغہ شاعروں کے مشہور شعروں کو ”آپریشن” کرکے بگاڑ رہا ہے اور اگر ایسے شاعر زندہ ہوتے تو یقینا ان کی شاعری کا ”حشرنشر” کرنیوالے اس طبقے کیخلاف تلواریں سونت کر ان کے کریاکرم میں ایک لمحے کی تاخیر نہ کرتے یا پھر کلاشنکوف کے ٹریگر پر اُنگلی رکھ کر بغیر سوچے سمجھے ان کا کام تمام کرنے میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھتے۔ پتہ نہیں کہاں کہاں سے بے معنی اشعار ڈھونڈ کر ان نابغہ روزگار شعرائے کرام کی روحوں کو قبروں میں بے چین کرتے رہتے ہیں۔ ایسی بے تکی شاعری پڑھ کر مرحوم شعرائے کرام کی حالت پر رحم آجاتا ہے۔ یہ تو خیر دنیا سے رخصت ہو جانے والے شعرائے کرام کا حشر کچھ لوگ کر رہے ہیں اس حوالے سے ایک (حقیقہ) یاد آگیا جسے آپ لطیفے کے طور پر بھی انجوائے کرسکتے ہیں۔ حضرت جگر مراد آبادی عموماً شعر تخلیق کرتے ہوئے گنگنا کر ان اشعار کو ذہن نشین کرتے اور یہ کام وہ اپنے گھر کے بیٹھک میں بیٹھ کر کرتے جبکہ بیٹھک کی ایک کھڑکی باہر گلی میں کھلتی تھی۔ ایک بار وہ کھڑکی کھول کر تخلیق غزل میں مگن تھے کیونکہ رات کے وقت انہیں شہر کے ایک مشاعرے کی صدارت کرنے اور وہاں اپنا تازہ کلام سنانے جانا تھا’ ان کی گلی کا ایک نوجوان بھی شعر وشاعری کا دلدادہ تھا’ وہ جگر صاحب کی غزل سن کر ساتھ ہی نوٹ کرتا جا رہا تھا اور مشاعرے میں جا کر اپنا نام بطور شاعر لسٹ میں لکھوا کر مشاعرہ شروع ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ جگر صاحب کے آتے ہی مشاعرہ شروع ہوا اور ضوابط کے مطابق نوآموز شعراء سے ابتدا کی گئی’ اس نوجوان کا نام پکارا گیا تو اس نے نہایت ڈھٹائی سے جگر مراد آبادی کی وہی تازہ غزل سنا کر ہر طرف سے داد سمیٹنی شروع کردی۔ جگر صاحب حیران ہو کر اسے دیکھنے لگے، بہرحال جب صاحب صدر یعنی جگر مراد آبادی کی باری آئی تو انہوں نے مرزا غالب کی ایک مشہور غزل پڑھنی شروع کردی۔ سامعین کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا مگر بالآخر ہال کے مختلف کونوں سے ہوٹنگ کا آغاز ہوا اور طنزیہ جملے کسے جانے لگے۔ اے بڈھے شرم نہیں آتی’ مرزا غالب پر ہاتھ صاف کر رہے ہو وغیرہ وغیرہ۔ جگر مراد آبادی خاموش ہوگئے اور چند لمحوں میں جملے بازی بھی تھم گئی تو جگر صاحب نے کہا’ بھائیو! میں نے تو مرزا غالب کی غزل اس لئے سنائی کہ وہ تو کب کے مرحوم ہو چکے ہیں’ بھلا میرا کیا بگاڑ سکتے ہیں مگر ادھر ”دن دیہاڑے” اس نوجوان نے میری تازہ غزل پڑھ کر ڈھیروں داد سمیٹ لی ہے اسے تو کسی نے کچھ بھی نہیں کہا۔ پھر اس کے بعد گویا چراغوں میں روشنی نہ رہی یعنی ظاہر ہے اس متشاعر کا جو حشر ہوا ہوگا اس کا صرف تصور ہی کیا جا سکتا ہے۔ بہرحال اب جو سوشل میڈیا پر مشہور شعراء کا جو حشر نشر کیا جا رہا ہے اس حوالے سے سب سے زیادہ طبع آزمائی تو علامہ اقبال پر ہو رہی ہے اور ان سے بعض ایسے اشعار منسوب کئے جا رہے ہیں جو ان کے نہیں ہیں’ مثلاً ایک بہت ہی مشہور زمانہ شعر ہے
تندئی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اُڑانے کیلئے
اصل میں یہ شعر سید صادق حسین نامی کسی شاعر کا ہے مگر اس میں بظاہر علامہ اقبال کا لہجہ جھلکنے کی وجہ سے اصل شاعر بے چارہ پس منظر میں چلا گیا اور یار لوگوں نے اسے علامہ صاحب سے منسوب کر دیا۔ بعض شعراء کیساتھ تو حرکت یہ کی گئی کہ انہی کے دو مختلف شعروں کے دو الگ الگ مصرعے جوڑ کر نیا شعر تخلیق کرنے کی کوشش کی گئی مثلاً مرزا غالب کا ایک شعر یوں ہے کہ
دل سے تری نگاہ جگر سے اُتر گئی
دونوں کو اک ادا میں رضامند کرگئی
اور دوسرا شعر
حیران ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
(باقی صفحہ 7 )

مزید پڑھیں:  بجلی کے سمارٹ میٹرز کی تنصیب