اعلیٰ سرکاری اجلاس میں ذیل کے اعداد و شمار کو مدنظر رکھنے کے باوجود دعویٰ یہ کیا جارہا ہے کہ حکومت کی تعلیم کے شعبے پر پوری طرح توجہ ہے ۔ خود حکام کے اپنے پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت 49لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں اور 90 لاکھ بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں جس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ سرکاری طور پر یہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ خیبر پختونخوا میں بچوں کی تقریباً نصف تعداد سکول جانے اور تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہے دکھاوے کے لئے تو ہر سال بچوں کی زیادہ تعداد کو داخلہ دینے کے لئے مہم چلتی ہے حکومت بچوں کو مفت بستے اور کتابیں فراہم کرتی ہے جلد ہی تعلیم کارڈ کا اجراء ہونے جارہا ہے ٹرانسپورٹ کی سہولت کی بھی تیاری ہے بعض اضلاع میں وظائف اور کھانا فراہم کرنے کی بھی شنید ہے بہتروسائل بروئے کار لانے کا تاثر الگ سے دیا جارہا ہے تعلیم ہرحکومت کی اولین ترجیح کے نعرے بھی لگتے آئے لیکن نتیجہ صفر ہی نکلتا رہا ہے اور یہی نتیجہ نکلنے کی توقع ہے اس لئے کہ جہاں آوے کا آوا بگڑا ہو وہاں اجلاسوں کے انعقاد اور فیصلوں سے بہتری نہیں آتی وہاں پر پرائمری سکول اور گائوں کی سطح پر عملی اقدامات یقینی بنانے کی ضرورت ہوتی ہے دیکھا جائے تو سکولوں سے اپنے بچوں کو دور رکھنے والے ماں باپ کی مجبوریاں اپنی جگہ میٹرک تک تعلیم حاصل کرنا اور نہ کرنا برابر ہوگیا ہے کالج اور جامعات سے بھی بیروزگاروںکی ٹولیاں ہی برآمد ہو رہی ہیں تعلیم حاصل کرنا نہ کرنا تقریباً برابر ہو گیا ہے یہ ایک سنگین صورتحال ہے جس میں قومی سطح کی پالیسی اور اقدامات کی ضرورت ہے صوبائی اور مقامی سطح پر سکولوں میں ہر طالب علم کو مناسب فنی تعلیم او ر ہنرمندی سکھانے پر کیوں توجہ نہیںدی جاتی کم از کم والدین اس لالچ ہی میں بچوں کو سکول بھیجنے لگیں کہ ان کا بیٹا معمار بڑھئی ‘ الیکٹریشن ‘ پلمبر اور مستری ہی بن سکے گا یہ بھی خود روزگار کمانے کے ہنر اور مہارتیں ہیں ان کی تعلیم میں حرج ہی کیا ہے اب تک جوپرپرخوانی ہوتی رہی ہے اس کے نتائج بھی سب کے سامنے ہیںدنیا میں ا ن ممالک کی تقلید کیوں نہیں کی جاتی جہاں بچوں کو روایتی تدریس کے ساتھ ساتھ فن اور ہنرمندی اور مہارت سکھانے کا انتظام ہوتا ہے اور وہاں بیروزگاری کی شرح کم اور باعزت روزگار سیکھنے اور کمانے کی شرح زیادہ ہے روایتی اجلاس اور فیصلوں سے ہٹ کر بھی کبھی دنیا میں تعلیمی ضروریات اور طریقہ ہائے کار کاجائزہ لینے کی زحمت کی جائے تو بہتر ہوگا روایتی نظام تعلیم و تدریس میں قابل قبول تبدیلی لا کر ہی نصف کی تعداد میں سکولوں میں آنے سے محروم رہنے والے بچوں اور ان کے والدین کو متوجہ کیا جا سکتا ہے تجرباتی بنیادوں پر ہی چند اضلاع او رعلاقوں میں ایسا کرنے میں حرج ہی کیا ہے؟۔
