شکوہ شکایات کی نوبت نہ آنے دی جائے

نائب وزیر اعظم اسحق ڈار کابل کے دورے سے کس قدر کامیاب آئے اس کا عملی طور پر علم وقت گزرنے کے ساتھ ہی ہوگا البتہ ان کی کاوش سنجیدہ اور رابطے کی بحالی مشاورت اور بعض معاملات پر اتفاق ان حالات میں ضرور غنیمت ہے اس پر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کو معترض ہونے کی بجائے مطمئن ہونے کی ضرورت تھی تاہم یہ بھی درست ہے کہ وفاقی حکومت خیبر پختونخوا حکومت کی مساعی اور مطالبات میں دلچسپی نہیں دکھائی جس کی وجہ شاید یہ ہو کہ وفاق کی اپنی پالیسی ‘ ترجیحات اور معاملات ہوتے ہیں جس میں صوبوں کی مشاورت ضروری نہیں پڑوسی ملک سے متصل صوبہ ہونے کے باعث صوبے کو درپیش مشکلات کا حل صرف صوبے کی نہیں بلکہ اس سے زیادہ وفاق کی ذمہ داری ہے اب جبکہ اس ضمن میں ان کی جانب سے ایک سنجیدہ کوشش سامنے آئی ہے تو باوجود شکوہ شکایات کے ایسی تمام مساعی جس سے ملک میں اور ہمارے صوبے میں معاملات میں آسانی ہو امن وا مان کی صورتحال میں بہتری کے امکانات ہوں افغان مہاجرین کی واپسی کے معاملات میں پیچیدگیوں اور سختیوں میں کمی آئے ان کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے اور اس ضمن میں تنقید کی بجائے تجاویز دینے کا طرز عمل زیادہ مناسب ہوگا۔ توقع کی جانی چاہئے کہ صوبے سے متعلق اہم فیصلوں میں وفاق بھی اسے نظر انداز کرنے کی پالیسی پر نظر ثانی کرے گی اور قومی یکجہتی و اتحادکا پورا پورا خیال رکھا جائے گا۔امید ہے کہ آئندہ وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتیں سیاسی اختلافات کی بنیاد پر ایسے معاملات میں دوسرے فریق کو نظر انداز کرنے کی غلطی کا اعادہ نہیں کریں گی جوقومی مفاد کا تقاضا ہواور اس میں تنہا پرواز کی بجائے مشاورت اور باہم مل کر قدم اٹھانا زیادہ موثر اور وقت کی ضرورت ہو۔

مزید پڑھیں:  وزیراعظم کا قوم سے خطاب ۔۔۔۔اور ؟