عہد ِماضی کے مہمانوں کی رخصتی

ان دنوں افغان مہاجرین بڑی تعداد میں واپس جارہے ہیں ۔ان میں وہ بھی ہیں جو وطن کی ہوائوںا کو چھوڑ کر اپنے قدموںپر چل کر ڈیورنڈلائن عبور کرکے آئے تھے اور وہ بھی جنہوں نے صرف افغانستان کی کہانیاں سنی ہیں ۔وہ پاکستان میں ہی پیدا ہوئے یہیں پلے بڑھے اور یہیں اپنا رزق کما رہے تھے۔یہ نوجوان اردو تو فر فر بولتے ہیں مگر وہ پاکستان کی مقامی زبانیں ہندکو پنجابی سرائیکی پہاڑی بھی اتنی روانی سے بولتے ہیں کہ خوش گوار حیرت ہوتی ہے ۔اب افغانستان میں مروج اور مستعمل زبانوں میں ہماری علاقائی زبانوں کے رنگ بھی شامل ہوگئے ہیں ۔اب پاکستانی اگر افغانستان گھومنے جائیں گے تو انہیں کسی نہ کسی کونے میں پاکستان پلٹ نوجوان ہی نہیں بلکہ مقامی زبانیں بھی سننے کو ملیں گی ۔افغان مہاجرین کے پاکستان میں پیدا ہونے والے لڑکے سوشل میڈیا کے شہسوار بھی ہیں وہ اپنی رخصتی کے لمحات کو کیمروں اور تبصروں میں یادگار بنا رہے ہیں ۔اکثر کی آنکھیں نم اور لہجے ٹوٹے ہوتے ہیں ۔ظاہر ہے کہ انہیں رضا ورغبت کے بغیر اپنی جنم بھومی چھوڑنا پڑ رہی ہے ۔کھیل کے وہ میدان چھوڑنا پڑ رہے ہیں جہاں وہ اپنے پاکستانی دوستوں اور کلاس فیلوز کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتے اور کھیلتے کودتے رہے ۔کچھ نوجوان مایوسی اور غصے میں اپنا فرنیچر اور دوسری اشیا توڑ رہے ہیں توکچھ خوش دلی سے مال بردارٹرکوں پر چڑھ رہے ہیں ۔ان میں وہ بھی ہیں جن کے بزرگوں کی قبریں اب پاکستان کے قبرستانوں اور مہاجر بستیوں کے آس پاس ہیں ۔یوں پاکستان میں ان کی جڑیں دفن ہیں اور اپنی جڑوں سے دور ہونا ایک اذیت اور دکھ ہے ۔یہ دن جلد یا بدیر آنا ہی تھا کیونکہ فطرت کا اصول یہی ہے ”ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں ” ۔وقت بدل گیا وقت کا کام ہی بدلنا ہے ۔وقت بدلتا ہے تو اس کے تقاضے اور ضرورتیں بھی بدل جاتی ہیں ۔وطن لوٹتے ہوئے افغان نوجوانوں اور بزرگوں کی کہانی بھی نصف صدی کا قصہ ہے دوچار برس کی بات نہیں ۔1979میںجب سوویت ا فواج افغانستان میں داخل ہوئیں تو افغانوں کی مہاجرت کا عمل تیز ہوگیا ۔لوگ اپنے مویشیوں اور اونٹوں سمیت ڈیورنڈ لائن عبور کرکے پاکستان کے طول وعرض میں پھیل گئے ۔پاکستان میں سرکاری سطح پر یہ مہم شروع ہوگئی کہ افغان مہاجرین پاکستان کے مقدس اور محترم مہمان ہیں ۔ان کے ملک پر روس نے قبضہ کیا ہے اور روسی فوج کے مظالم سے تنگ آکر یہ لوگ پاکستان میں داخل ہوئے ہیں ۔افغان مہاجرین کے سب سے بڑے وکیل ریاست کے حاکم تھے ۔مردمومن مردحق ضیاء الحق قوم سے خطابات میں قرآن کی آیات اور اسلام کے اخوت وایثار کے دروس کے حوالوں کے ساتھ اہل پاکستان کو ان مہاجرین کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کرتے ۔پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان اس فلسفے کو فروغ دیتے ۔افغان پاکستان کے طول وعرض میں پھیل گئے مگر ان میں سے کسی کو بھیک مانگتے نہیں دیکھا گیا ۔ان کی عورتیں شٹل کاک برقعوں میں اجنبی دنیا کی ہی مخلوق رہیں ۔ان کے مرد زمین پر تلاش رزق کے لئے پھیل گئے ۔1980کا زمانہ تھا جب کئی اونچے لمبے اور سبز آنکھوں والے افغان جن میں ایک نام مجھے آج بھی یاد ہے چنار گل جاپانی کپڑا لئے گائوں گائوں نگر نگر گھومتے ۔جب یہ ہماری دہلیز پر پہنچتے تو میرے والد انہیں اللہ کا مہمان قراردے کر ان کی ہر طرح سے خاطر مدارت کا اہتمام کرتے ۔گھر میں کام کرنے والوں کے ساتھ ساتھ بچوں کو بھی ان کی خدمت پر مامور کیا جاتا ۔میں دلچسپی سے ان سے پوچھتا کہ اچھا روس کس طرح آپ پر ظلم ڈھاتا ہے ۔وہ اس قدر خوفناک کہانیاں سناتے کہ جناب محمد اسلام کی مشہور زمانہ کتاب” موت کا منظر مرنے کے بعد کیا ہوگا”؟سے بھی زیادہ خوف کی جھرجھری بدن میں پیدا ہوتی ۔انہی میں سے ایک نے پہلی بار راکٹ اور راکٹ لانچر کا تعارف کرایا تو حیرت سے منہ کھلے کا کھلا رہ گیا ۔افغانوں کے جذبے اور ان کا ایثار اور قربانی کا شوق اپنی جگہ مگر ان پر یہ اُفتاد ان کے گناہوں کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ ان کا ملک عالمی ضرورتوں اور وسائل کی چھینا جھپٹی کے کراس فائر میں آگیا تھا ۔پہلے سوویت یونین دریائے آمو پار کرکے اس ملک کی حدود میں کودا ۔سوویت یونین نے اس کے لئے افغان حکمرانوں کی دعوت کو بہانہ بنایا تو پھر سوویت یونین کو پچھاڑنے کے لئے امریکہ بھی ڈیورنڈلائن کے ذریعے رنگ وروپ بدل کرکبھی چارلی ولسن تو کبھی کرنل امام کی صورت افغانستان میں داخل ہوا۔انہیں سات جماعتی اتحاد کی دعوت کا بہانہ میسر آگیا ۔یوں افغانستان دوہاتھیوں کی لڑائی میں راہ کی گھاس بن گیا ۔وقت کی دوسوپر طاقتیں اپنے جدید ہتھیاروں اور بے پناہ وسائل کے ساتھ جس سرزمین پر فٹ بال کھیلیں تو اس کی پامالی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔افغانستان میں جوں جوں کھیل آگے بڑھتا اور زور پکڑتا گیا افغانوں کے دکھ طویل ہوتے چلے گئے ۔بمباری کے باعث ان کے قافلے گھروں سے نکل کرپاکستان اور ایران کا رخ کرتے چلے گئے ۔یہ آئے تو چند برس کے لئے تھے مگر ہوا وہی جو ایسے خونیں کھیلوں اور خواہشات کا ہوتا ہے ۔ان مہاجرین کا پاکستان میں قیام طویل سے طویل تر ہوتا چلا گیا ۔وہ مر کر اسی سرزمین کی خاک اوڑھ کر سوتے گئے ان کے بچے پیدا ہو کر یہیں کی ہوائیں سانسوں میں اُتارتے اور یہیں کی زبانیں بول کر جوان ہوتے چلے گئے ۔ان کی مہمانی اور پاکستان کی میزبانی کے دن طویل سے طویل تر ہوتے چلے گئے۔یہاں تک سوویت یونین کی فوجیں افغانستان سے نکل گئیں تو افغان منیر نیازی کے اس شعر کی تصویر بن کر رہ گئے
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اُتر تو میں نے دیکھا
ان جھگی نشین و مکین افغانوں کی قسمت بھی عجیب تھی خود تو پھٹے پرانے ٹاٹوں کے پیچھے اپنی سلطنت بنائے رہے اور ان کے نام پر نجانے کتنی ہی شخصیات اورادارے واقعتا دولت کی سلطنتوں کے حاکم بن گئے ۔جنگ صنعت اور موقع وامکان بن جائے تو یہ سب مناظر اور اُتار چڑھائو دیکھنے کو ملتے ہیں ۔عمومی تاثر یہ تھا کہ یہ مہاجرین اپنی بغل میں ہیروئن کی تھیلیاں اور کاشنکوف لئے آتے رہے ۔یہ تاثر درست نہیں تھا ۔حقیقت میں جنگ کے پہلو بہ پہلو منشیات اور اسلحہ کا کاروبار بھی بااثر طبقات کی زیر سایہ جاری رہا ۔ اور تو اور ایک بار افغانستان کی سرزمین پرجہاں پندرہ دن کے لئے ہماراقیام تھا ایک شخص نے بتایا کہ یہاں تو پہاڑوں میں ڈالر چھاپنے کی مشینیں بھی نصب ہیں ۔یہ ڈالر افغانستان اور پاکستان میں گردش کرتے ہیں۔یہ عمل امریکہ کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں تھا اور امریکہ نے اپنے نظریہ ٔ ضرورت کے تحت اور افغانستان کی صورت حال کے تناظر میں اس بات کی خصوصی اجازت دی ہوتی ۔اب بدلے ہوئے وقت نے ایک دور کے پسندیدہ مہمانوں کو ناپسندیدہ بوجھ بنا دیا ہے اور ان کی رخصتی کا عمل تیز ہو گیا ہے تو حکومت کو اس رخصتی کو باوقار بنانا چاہئے ۔ان کو اپنا کاروبار سمیٹنے کے لئے مناسب اور معقول وقت اور مدد ملنی چاہئے ۔ان کے گھر افغانستان میں چھوٹے چھوٹے پاکستان ہوں گے ۔ چھوٹے چھوٹے سفارت خانے ہوں گے ۔ اس لئے بقول ساحر لدھیانوی نصف صدی کے تعلق اور تعارف کے افسانے کو خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا ہے۔

مزید پڑھیں:  تسبیح دردست زناردردل