ہم نہ تو سٹرے ڈیمس ہیں ‘نہ بابا وانگا ‘ نہ ہی ستارہ شناسی اور جوتش سے کوئی واسطہ تعلق رکھتے ہیں ‘ مگر پھر بھی اکثر ہم اپنے کالم اور دوسری تحریروں میں حالات حاضرہ پر جو تبصرے کرکے حالات کی تصویر کشی کرتے رہتے ہیں تو اس کا کارن حالات حاضرہ پر مستقل نظریں رکھتے ہوئے جن تجربات سے عام لوگوں کی طرح ہمیں بھی گزرنا پڑتا ہے ‘ ان کو ذہن میں رکھتے ہوئے موقع محل کی مناسبت سے ان پر اپنے خیالات اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کرکے ان کو بھی یاد دلاتے ہیں کہ اب ان کے ساتھ کیا ہونے جارہا ہے حالانکہ ملک کے ایک بہت ہی مشہور فکاہیہ کلام کہنے والے سینئر شاعر دلاور فگار مرحوم نے بھی کہا تھا کہ
حالات حاضرہ نہیں گو مستقل ‘ مگر
حالات حاضرہ کو کئی سال ہو گئے
مگر اس کے باوجود وہ جو انگریزی کا ایک مشہور مقولہ ہے کہ ”تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے” تو اس مقولے کی حقانیت سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا ‘ اور جس موضوع پر ہم ایک بار پھر آپ کی سمع خراشی کرنے جارہے ہیں ‘ اس کو اتنا نیا بھی قرار نہیں دے سکتے بلکہ اگر ہمیں یاد ہے کہ ہمارا اس موضوع سے تعلق اپنے لڑکپن کے دنوں سے چلا آرہا ہے یعنی اگر 50 کی دہائی کے اواخر کا تذکرہ نہ بھی کریں جسے ممکن ہے بعض مہربان ”بڑہانکنے” سے تشبیہ دیدیں ‘ تو کم از کم 60ء کی دہانی سے خود ہم اکثر و بیشتر یہی حالات دیکھتے اور ان کا مشاہدہ کرتے آرہے ہیں کہ شہر میں نانبائی تندوروں پر روٹی کے ساتھ کیا سلوک کرتے رہے ہیں یا یوں سمجھیں کہ عوام کے ساتھ حالات کچھ زیادہ مختلف نہیں تھے اور اس دور میں اکبر سرحد کے لقب سے مشہور ایک باکمال شاعر مرزا محمود سرحدی اپنے قطعات میں جو اس دور کے اخبار روزنامہ انجام میں باقاعدگی کے ساتھ شائع ہوتے تھے دوسرے موضوعات کے ساتھ ساتھ روٹیوں کے مسئلے پر بھی اظہار خیال کرتے ہوئے عوام کے دلوں کو چھیڑتے رہتے ۔
دیکھئے نانبائیوں کا کمال
خوب سوچا ہے سب نے مل جل کے
اٹھتے ہی کنٹرول آٹے کا
روٹیوں کے بنا دیئے پھلکے
مرزا محمود سرحدی مرحوم نے آٹے پر کنٹرول اٹھنے کے حوالے سے جو بات کی ہے اس کا پس منظر یہ ہے کہ انگریز کے دور میں دوسری جنگ عظیم کے دوران کسی بھی ممکنہ قلت کے پیش نظر حکومت نے آٹے اور چینی پر کنٹرول کا نظام رائج کرکے ہر گھرانے کو اس کی تعداد کے مطابق راشن کارڈ جاری کردیئے تھے اور راشن ہفتہ وار کے حساب سے راشن ڈپوئوں سے ملا کرتا تھا ‘ یہ سسٹم بھارت میں اب بھی قائم ہے جبکہ پاکستان میں ایک تو امریکہ کے ساتھ سیٹو اور سینٹو معاہدوں میں جکڑے جانے کے بعد وہاں سے ایک معاہدے”پی ایل 480” کے تحت گندم وافر مقدار میں تحفہ کے طور پر آنے لگی اور کچھ ملکی سطح پر پیداوار میں اضافے کے نتیجے میں صورتحال کچھ بہتر ہوئی تو راشنگ سسٹم کو خیر باد کہہ دیا گیا تاہم اس سے پہلے بلکہ اس دوران بھی صورتحال زیادہ حوصلہ افزاء نہیں تھی اور نانبائیوں کی دکانوں پر روٹیاں لینے والوں کی لمبی قطاریں کھڑی نظر آتیں جس پر مرزا صاحب مرحوم نے کہا تھا
کرم اے شہ عرب و عجم
ہے وہ روٹیوں کا پرابلم
کھڑے ہم ہیں ایسے قطار میں
کہ کھڑے ہوں جیسے نماز میں
روٹی کے وزن والا معاملہ ان دنوں بھی تقریباً ایسا ہی تھا(اگرچہ یہ جو ڈبل یعنی دوگنے وزن کی روٹی بعض جگہ فروخت ہوتی ہے اس کی کوئی روایت نہیں تھی اس لئے روٹی کی کم وزنی کے دکھڑے ان دنوں بھی عام تھے اس ضمن میں پروفیسر طہٰ خان مرحوم نے بھی ایک بار کہا تھا
نہ جانے اس پہ کتنے اختصاری دور گزرے ہیں
بچاری ہر زمانے میں یہ چھوٹی ہوتی آئی ہے
بھلا یہ کھانے والے کے شکم تک کیسے پہنچے گی
پشاور شہر کی روٹی تو اب نان خطائی ہے
کالم کے آغاز میں ہم نے خود کے بارے میں کسی علم نجوم ‘ جوتش ‘ یا دیگر پیش بینی کے علوم سے کوئی تعلق واسطہ نہ رکھنے کی جو بات کی ہے ‘ البتہ حالات کے بارے میں کسی حد تک درست تجزیہ کرنے کا جو بیانیہ اختیار کیا ہے اسی حوالے سے ایک تازہ خبر پر تبصرہ کرنے کی جسارت کرتے ہوئے عرض گزار ہیں کہ ہونا ‘ ہوانا کچھ بھی نہیں ہے ‘ معاملات(حسب سابق) جوں کے توں رہنے کی ”آشنکا” یعنی امید ہے بلکہ اگر اسے لفظ خدشہ قرار دیا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا کیونکہ خدشہ کے ساتھ ”خطرات” وابستہ ہوتے ہیں اور یہ خطرات مبینہ طور پر نانبائیوں کی جانب سے سامنے آرہے ہیں بلکہ آچکے ہیں اور وہ یوں کہ گندم کی قیمت میں نمایاں فرق اور انتظامیہ کی جانب سے عوام کو ریلیف دینے کے لئے نہ صرف روٹی کا وزن بڑھا دیا گیا ہے بلکہ ڈبل روٹی پر پابندی کی اطلاعات بھی سامنے آئیں اور سوگرام سے بیس گرام کی روٹی کی جسامت و قیمت میں تبدیلی کے بعد ڈیڑھ سو گرام کی روٹی کی قیمت بیس روپے مقرر کی گئی ‘ مگر بقول شخصے اے بسا آرزو کہ خاک شدہ حسب روایت و”عادت” نانبائیوں نے اس حکم کو بھی جوتے کی نوک پر رکھ دیا ہے او ر ممکن ہے کہیں اکا دکا مقام پر کوئی خدا ترس نانبائی اللہ کے خوف سے (انتظامیہ کا خوف تو کب کا جا چکا ہے) اس حکم پر عمل کرتا ہو ‘ مگر باقی شہر میں عوام کی داد رسی کی جو کوشش کی ہے تو اس کے پیچھے کچھوے اور بچھو کی دوستی کی کہانی موجود ہے جس میں بچھو اپنی عادت سے مجبور ہونے کا مظاہرہ کرتا ہے ایسی ہی کیفیت عوام اور نانبائیوں کے تعلقات کی ہے اس لئے مرزا محمود سرحدی سے ایک بار پھر رجوع کرنا پڑتا ہے کہ
ترے کرم کی کوئی حد نہیں حساب نہیں
چبا کے نان شبینہ میں سوچتا ہی رہا
اور پروفیسر طہٰ خان نے بھی تو کہا تھا
یہ قصابان ملت نے عجب منڈی لگائی ہے
یہاں بکرا تو سستا ہے مگر بوٹی مہنگی ہے
یہ ارزانی عجب ہے پیٹ جس سے بھر نہیں سکتا
یہاں انصاف سستا ہے مگر روٹی مہنگی ہے
رہے بے چارے عوام تو ان کی مثال تو ایک عرصے سے ”مردہ بدست زندہ” والی ہے وہ تو ہر انتخابی عمل کے بعد اپنا حق حکمرانی صرف سیاسی رہنمائوں کو نہیں ہر قسم کی ”مافیا” کو دے کر صرف ہاتھ ملتے رہنے کے ہی قابل رہ جاتے ہیں اور بقول شاعر
کچھ تو خزاں ہے باعث بربادی چمن
کچھ باغباں کا ہاتھ بھی اس میں ضرور ہے
