ویب ڈیسک: آرٹیکل 370 منسوخی کے بعد سے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال غیر مستحکم اور تشویش ناک قرار دی جا رہی ہے، اس کے ساتھ ہی مودی کا کنٹرول مقبوضہ وادی پر اب کمزور ہوتا جا رہا ہے، اور اس کے ساتھ ہی علاقے میں امن کے دعوے بے بنیاد ثابت ہونے لگے ہیں۔
آرٹیکل 370 منسوخی سمیت مودی کی تمام یکطرفہ پالیسیوں نے عوامی غصے کو بغاوت کی شکل دی، جس سے لوگوں میں پائی جانیوالی بے چینی عیاں ہونے لگی ہے، اس آرٹیکل کی منسوخی کو امت شاہ نے تاریخی قدم قرار دیا تھا، اور دعویٰ کیا تھا کہ آرٹیکل 370 ہٹانے سے کشمیر میں دہشت گردی ختم ہوگی، امن اور یکساں حقوق ملیں گے۔
ذرائع کے مطابق امت شاہ کے اس سلسلے میں کئے جانے والے تمام دعوے حقیقت سے کوسوں دور ہیں، جبکہ مقبوضہ وادی کل بھی مشکلات میں گھری تھی اور آج بھی سلگ رہی ہے۔
مودی حکومت نے کشمیری عوام اور قیادت کو نظرانداز کرتے ہوئے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کرنے سمیت محبوبہ مفتی، عمر عبداللہ اور دیگر رہنماؤں کو نظر بند کیا، جس کے ردعمل میں احتجاج اور تحریکیں شدت پکڑ گئیں۔
آرٹیکل 370 منسوخی کے بعد سے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال تشویش ناک ہونے لگی ہیں، جبکہ مودی سرکاری کی ناکام پالیسیوں کے خلاف جموں و کشمیر اپنی پارٹی جیسی جماعتیں منظر عام پر آئیں، کشمیر میں مودی حکومت کے خلاف مزاحمت بڑھ رہی ہے، آزادی کی آوازیں مزید بلند ہو رہی ہیں۔
مودی حکومت کے اقدامات سے کشمیر ایک کھلی جیل کی مانند ہو گیا ہے، جہاں کرفیو، انسانی حقوق کی پامالیاں عام ہونے لگی ہے، ہیومن رائٹس واچ نے 2019 کے بعد مقبوضہ کشمیر میں حقوق کی پامالیوں کو دستاویزی شکل دی ہے، اس حوالے سے تیار کی جانے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2020 اور 2021 میں 200 سے زائد شہری سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں فیک انکاؤنٹر میں مارے گئے، ہزاروں کشمیری بشمول سیاسی رہنماؤں، کارکنوں اور طلباء کو بغیر الزام یا مقدمے کے گرفتار کیا گیا۔
ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اگست 2019 سے فروری 2020 تک سات ماہ کی طویل انٹرنیٹ کی بندش سے زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے، جبکہ پابندیاں اب بھی جاری ہیں، فوجی کاروائیوں کے دوران تشدد اور ہراسگی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جبکہ وہاں میڈیا پر بھی پابندی لگائی گئی ہے، کشمیر میں مودی کے جبر کیخلاف مزاحمت آزادی کے لیے کشمیری عوام کے عزم کی عکاسی ہے۔
