ویب ڈیسک: سندھ طاس معاہدہ پاکستان کی زراعت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، اس کی اہمیت اس بات سے بھی عیاں ہے کہ پاکستان کے زرعی شعبے کا تقریباً 80 فیصد انحصار انہی مغربی دریاؤں (سندھ، جہلم، چناب) پر ہے۔ اس لئے بھارت کو سندھ طاس معاہدے کی مکمل پاسداری کرنی چاہیے۔
19 ستمبر 1960 میں عالمی بینک کی ثالثی میں یہ معاہدہ ہوا، اس معاہدہ میں پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی منصفانہ تقسیم اور تنازع سے بچاؤ کی راہ نکالی گئی، تاہم اس معاہدے کی اہمیت جتنی پاکستان کیلئے ہے اتنی شاید بھارت کو نہیں، کیونکہ سندھ طاس معاہدہ پاکستان کی زراعت کیلئے انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔
پاکستان کے زرعی شعبے کا تقریباً 80 فیصد انحصار انہی مغربی دریاؤں (سندھ، جہلم، چناب) پر ہے، جو معاہدے کے تحت پاکستان کے حصے میں آئے، لہٰذا پاکستان کے لیے یہ معاہدہ آبی زندگی کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ پاکستان اس معاہدے کو ایک ایسا قانونی فریم ورک سمجھتا ہے جو بھارت کو دریاؤں کے پانی کو موڑنے یا روکنے سے باز رکھتا ہے۔
پاکستان اکثر اس معاہدے کو اقوامِ متحدہ اور عالمی برادری کے سامنے ایک مضبوط دلیل کے طور پر پیش کرتا رہا ہے، خاص طور پر جب بھارت نئے ڈیمز یا آبی منصوبے شروع کرتا ہے۔ اس تنازع کی بنیاد بھی شاید یہی ہے۔
سندھ طاس معاہدہ اگرچہ نافذ العمل ہے، لیکن بھارت کی طرف سے بعض ڈیموں اور پانی کے ذخیرہ کرنے کے منصوبوں پر پاکستان کو اعتراضات رہے ہیں، جنہیں وہ معاہدے کی روح کے خلاف سمجھتا ہے، جیسے بگلیہار ڈیم، کشن گنگا پراجیکٹ، رتلے ڈیم وغیرہ۔
اس حوالے سے ہمیشہ پاکستان کا موقف رہا ہے کہ بھارت کو معاہدے کی مکمل پاسداری کرنی چاہیے، بھارت کی طرف سے کسی بھی طرح کی آبی جارحیت کو پاکستان قومی سلامتی کے خلاف خطرہ سمجھتا ہے۔ اگر بھارت معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے، تو پاکستان کے پاس عالمی عدالت انصاف اور ثالثی عدالت جانے کا حق محفوظ ہے۔
ذرائع کے مطابق پاکستان کی نظر میں سندھ طاس معاہدہ صرف ایک آبی معاہدہ نہیں، بلکہ یہ ایک اسٹریٹجک اور زندگی بخش معاہدہ ہے، جو ملک کے معاشی، زرعی اور سکیورٹی مفادات کی بنیاد پر کھڑا ہے۔ پاکستان اسے قابلِ تجدید یا منسوخ ہونے والا نہیں بلکہ مقدس اور لازم سمجھتا ہے۔
