ویب ڈیسک: پہلگام واقعہ کے بعد جہاں بھارت پاکستان پر الزام تراشیاں کرنے لگا ہے، اور اس کے ساتھ ہی سندھ طاس معاہدہ بھی معطل کر دیا ہے، وہیں انکشاف کیا گیا ہے کہ سندھ طاس معاہدے پر عملدرآمد بھارت پہلے ہی روک چکا تھا جسے ایک اندازے کے مطابق چار سال مکمل ہو چکے، تاہم اس اقدام کا اعلان اب کیا جا رہا ہے۔
ایڈیشنل انڈس واٹر کمشنر کا کہنا تھا کہ گزشتہ چار سالوں میں واٹر کمشنرز کا سالانہ اجلاس منعقد نہیں ہوا، جبکہ دریاؤں میں پانی کا ڈیٹا بھی 30 سے 40 فیصد ہی فراہم کر رہا ہے، بھارت صرف 30 سے 40 فیصد اعداد و شمار ہی دے رہا ہے، باقی پر وہ نِل یا نان آبزروینٹ لکھ کر بھیج رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت کی جانب سے یہ اعداد و شمار نہ دینے سے پاکستان کو خاص فرق نہیں پڑے گا کیونکہ ہم اپنی طرف دریاؤں پر آلات لگا کر پانی کے بہاؤ کا تخمینہ لگا سکتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق سابق ایڈیشنل انڈس واٹر کمشنر شیراز میمن نے کہا ہے کہ قلیل مدتی لحاظ سے اس کے پاکستان پر کوئی خاص اثرات مرتب نہیں ہوں گے، پاکستان کے حصے کے پانی کی بندش بھارت کیلئے ممکن نہیں کیونکہ اس کے پاس فی الوقت کوئی ایسا ذخیرہ یا وسائل نہیں جہاں وہ ان دریاؤں کے اس پانی کو جمع کر سکے۔
