امریکہ اور اسرائیل کے ایران کے اوپر منڈلاتے ہوئے ہر دم فوجی کاروائی کے خدشات کے سائے میں امریکہ ایران ایٹمی پروگرام پر مذاکرات کا دوسرا دور19اپریل کو اٹلی کے دارالخلافہ روم میں نہایت مثبت اور حوصلہ افزا پیشرفت کے ساتھ26 اپریل کو مذاکرات کے تیسرے دور کی ابتدا کے اعلان کے ساتھ سلطنت عمان کی معرفت اختتام پذیر ہوا۔ امریکہ کے مزاجا بپھرے ہوئے صدر ٹرمپ نے اور ایران کے تحمل مزاج وزیر خارجہ عباس عراقچی نے ان مذاکرات کو نہایت مثبت قرار دیا۔ ایران کی وزارت خارجہ نے تو یہاں تک اعلان کر دیا کہ 23 اپریل بروز بدھ ایران اور امریکہ کے تکنیکی حکام کا اجلاس عمان میں منعقد ہوگا جس میں مذاکرات کے حوالے سے ہونے والی پیشرفت کو بنیاد بنا کر ممکنہ معاہدے کے تکنیکی نکات کا جائزہ لیا جائے گا لیکن 22 اپریل کو ہی ایران کی وزارت خارجہ کا ایک اور بیان آگیا کہ بدھ کو اعلان کردہ مذاکرات 26 اپریل کو تیسرے دور کے ساتھ منعقد ہوں گے ۔اس کی وجہ عمان کے سلطان حاتم بن طارق ال سعد کی پیش کردہ کچھ تجاویز ہیں جن کی روشنی میں تکنیکی جائزہ میٹنگ کو آگے بڑھا دیا گیا ہے۔ ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ہونے والے مذاکرات کو خلیج کی ریاستوں سعودی عرب عمان و قطر کی جانب سے نہایت سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے سعودی عرب کے وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان 17 اپریل کو سعودی فرما رواں سلمان بن عبدالعزیز کا ایک ذاتی خط لے کر ایران کے سپریم لیڈر سید علی خامنہ ای سے ملے تھے اسی دن امریکی صدر ٹرمپ کا یہ بامعنی بیان آگیا کہ امریکہ کو ایران کے خلاف فوجی کاروائی کی کوئی جلدی نہیں کیونکہ ایران بات چیت جاری رکھنا چاہتا ہے اسی دن ایران کے وزیر خارجہ نے بھی خامنہ ای کے ذاتی خط کے ساتھ ماسکو میں روس کے صدر ولادی میر پوتن سے ملاقات کی اور مذاکرات کی پیشرفت پر بات چیت بھی کی ۔اس کے فوراً بعد22اپریل کو عمان کے سلطان حاتم بن طارق ال سعد نے ماسکو میں روسی صدر سے مذاکرات کے حوالے سے گفت و شنید کی جس کی روشنی میں شاید ایران امریکہ بدھ23 اپریل کے تکنیکی مذاکرات کو26 اپریل تک آگے کر دیا گیا ہے۔ ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی بیجنگ میں چینی حکام سے بھی 23اپریل کو ملے اور مذاکرات کے حوالے سے چین اور ایران کی مشترکہ اسٹریٹیجک پوزیشن کا ایک بیان چینی وزارت خارجہ نے بھی جاری کیا ۔اس درمیان میں16 اپریل کو اقوام متحدہ کی ایٹمی توانائی ایجنسی کے سربراہ رافیل گروسی نے بیان دیا کہ ایران ایٹم بنانے کے نہایت قریب ہے۔ ایرانی حکام اس بیان کے بعد سے ان کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔ مذاکرات کے حوالے سے اب تک ایک واضح صورتحال مذاکرات کے دوسرے دور کے حوالے سے عمان کی وزارت خارجہ کے بیان سے ہوتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ امریکہ ایران مذاکرات کے دوسرے دور میں مذاکرات کا محور ایران کا ایٹمی پروگرام تھا اور اس بات پر توجہ تھی کہ ایران کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کیا جائے لیکن اس کے ساتھ ایران پر تمام معاشی پابندیاں بھی اٹھا دی جائیں ۔ مغربی اور مڈل ایسٹ کے ذرائع ابلاغ کا فوکس یہ بات ہے کہ ایران اپنے ایٹمی پروگرام کو محدود کرنے پر تیار ہے لیکن وہ اس کو مکمل طور پر ختم کرنے پر آمادہ نہیں۔ ایرانی حکام ایٹمی پروگرام کو محدود بھی صرف اس صورت میں کرنا چاہتے ہیں جبکہ ایران پر عائد تمام کے تمام معاشی پابندیاں یکدم ختم کر دی جائیں ۔روم میں ہونے والے مذاکرات میں ایران کی میزائیل پروگرام پر کوئی بات چیت نہیں ہوئی بلکہ ایرانی حکام نے ایران کے سپریم لیڈر سید علی خامنہ ای کی دی ہوئی سرخ لکیروں کے ساتھ مذاکرات کو میز پر آگے بڑھایا جن کے مطابق ایران کبھی بھی یورینیم افزودگی کے سینٹریفیوجز کو ختم نہیں کرے گا نہ ہی یورینیم افزودگی کو مکمل طور پر روکے گا اور نہ ہی اپنے میزائل پروگرام پر کوئی بات چیت کرے گا۔ ایران اس بات کا خواہاں ہے کہ اگر معاشی پابندیوں کو ختم کرنے کے عوض اس کو اپنا ایٹمی پروگرام محدود کرنا پڑے تو اس کے لیے اس کو مضبوط بین الاقوامی ضمانتیں چاہیں ہیں اور ایرانی حکام امریکہ کے ٹرمپ یا کسی اور امریکی انتظامیہ کو کسی بھی ہونے والے معاہدے سے باہر نکلنے کا راستہ مکمل طور پر بند کرنا چاہتے ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ مغربی اور مشرق وسطیٰ میڈیا کے مطابق ان مذاکرات میں جو مشترکہ بات ہے وہ یہ ہے کہ امریکی حکام ایران کے ایٹمی پروگرام کو مکمل طور پر ختم نہیں کرنا چاہتے اور یہی وجہ ہے کہ ایران ان کے ساتھ ان مذاکرات میں بات چیت پر بالواسطہ یا براہ راست رضامند ہوا ہے۔ تیسری جانب اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے 19 اپریل کو اپنے اس موقف کا اعادہ بھی کیا ہے کہ اسرائیل کسی بھی صورت میں ایران کے ایٹمی پروگرام کو برداشت نہیں کرے گا اور اس ایٹمی پروگرام کو ختم کرنے کے لیے وہ اپنے موقف سے ایک سینٹی میٹر بھی پیچھے نہیں ہٹے گا بلکہ پروگرام کو ختم کرنے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گا ۔ایرانی حکام نے بھی واضح کیا ہے کہ اسرائیل ایران امریکہ مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے لیے ڈھکی اور چھپی کو شیشوں میں لگا ہوا ہے ۔امریکہ ایران مذاکرات کے حوالے سے خلیج کی ریاستوں سعودی عرب عمان قطر اور روس اور چین کی کوششوں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ 26 اپریل کو مذاکرات کا تیسرا دور بھی حوصلہ افزا ہوگا تاہم یہ فیصلہ کن حد سے بہت دور ہوگا اور شاید تکنیکی ماہرین کی شمولیت کے باوجود مذاکرات کسی فیصلہ کن حد پر پہنچے بغیر ہی چوتھے دور میں داخل ہو جائیں گے۔
