۔۔۔۔۔بھارت کی بو کھلاہٹ۔۔۔

پہلگام واقعہ کی آڑ میں بھارت کی جانب سے پاکستان کیخلاف جو محاذ کھولا گیا ہے اور جن اقدامات کا اعلان کیا گیا ہے وہ بلا وجہ یکطرفہ اور خطے میں اشتعال کو فروغ دینے کا باعث امور ہیں یہ درست ہے کہ بھارت کو ایک نہایت سنگین واقعے سے دو چار ہونا پڑا ہے لیکن خطے میں بھارت پہلا ملک نہیں جسے اس طرح کی صورتحال سے دو چار ہونا پڑا ہے اور نہ ہی یہ پہلی مرتبہ ہے کہ بھارت کو اس طرح کا دھچکا لگا ہے بھارت ہر مرتبہ اس طرح کے کسی واقعے کے جواب میں جو رد عمل دیتا ہے وہ حیران کن طور پر یک طرفہ ہوتا ہے اور ان کی توپوں کا سارا رخ پاکستان کی جانب ہوتا ہے ایسا لگتا ہے کہ بھارت پہلے سے ذہن بنا کر بیٹھا ہوتا ہے کہ وہ اس طرح کے ڈرامے رچا کر یا پھر اس طرح کے واقعات کے رونماء ہونے پر پاکستان کے حوالے سے ایسے کیا فیصلے کر کے بھارت کے عوام کے سامنے جواب دہی سے بچ جائے اور ان کے عوام کی توجہ پاکستان کی طرف ہو جائے۔بھارت کے سیخ پا ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ واقعہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب نائب امریکی صدر بھارت کے دورے پر ہیں اور وزیراعظم مودی خود سعودی عرب کے دورے پر تھے۔ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا جو اقدام کیا گیا ہے ایسا لگتا ہے کہ بھارت نے اس کی بہت پہلے سے تیاری کر رکھی تھی اور انہوں نے ذہن بنا لیا تھا کہ کوئی جھوٹا واقعہ برپا کر کے پاکستان کیخلاف کوئی ایسا اقدام کیا جائے جو میدان جنگ اور محاذ پر گئے بغیر پاکستان کو مشکلات سے دو چار کرنے کا باعث بنے بین الاقوامی طور پر دیکھا جائے تو بھارت کسی بھی اصول کے تحت سندھ طاس معاہدے کو یک طرفہ طور پر ختم نہیں کر سکتا یہ معاہدہ عالمی بینک کی ثالثی میں طے پایا ہے اور اس پر بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو اور صدر پاکستان محمد ایوب خان کے دستخط ہیں جس میں دریا اور پانی کی تقسیم کا قاعدہ معاہدہ کرتے ہوئے یہ ضمانت دی گئی ہے کہ معاہدے کے تحت بھارت دریاؤں کے پانی کا بہاؤ نہیں روک سکتا اور اگر اس پر کوئی تنازعہ کھڑا ہو جائے تو اسے عالمی ثالثی کے ذریعے حل کیا جائیگا ایسے میں ہندوستان کی طرف سے اس معاہدے کی یکطرفہ خلاف ورزی بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں کی خلاف ورزی تصور ہوگی جس کی روک تھام صرف پاکستان کی نہیں بلکہ عالمی ذمہ داری ہوگی بہرحال اس سے قطع نظر یہ امر بھی کوئی پوشیدہ نہیں کہ بھارت نے اگرچہ سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا اعلان تو کیا ہے لیکن عملی طور پر ایسا کرنا شاید ہی ممکن ہو کیونکہ قبل ازیں دونوں ملکوں کے درمیان دو بڑی جنگوں کے باوجود بھی سندھ طاس معاہدہ برقرار رکھا گیا بھارت کی اس خبث باطن کا مقصد پاکستان میں پانی کا بحران پیدا کر کے زراعت کی تباہی اور خوراک کی قلت پیدا کرنا ہے ایسے میں پاکستان ظاہر ہے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا نہیں رہے گا اور خطے میں جنگ کی نوبت آسکتی ہے جو کسی کے مفاد میں نہیں ان حالات میں اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بھارت کو اس معاہدے کی خلاف ورزی سے باز رکھے جبکہ خطے کے اہم ممالک سمیت دیگر دوست ممالک کو چاہیے کہ وہ پاک بھارت کشیدگی میں کمی لانے کیلئے سفارتی کوششوں کا آغاز کریں پاکستان اور بھارت کی بھی مشترکہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کوئی ایسا اقدام نہ کریں جس سے خطے میں کشیدگی میں اضافہ ہو بھارت کی جانب سے ایک مرتبہ پہلے پاکستان کی سرحد پار کرنے اور فضائی خلاف ورزی کرنے کی جو غلطی کی گئی تھی اس کا نتیجہ اور ناکامی دونوں بھارت کے سامنے ہیں اس طرح کی کسی اور ممکنہ غلطی کا حشر بھی اسی جیسا ہوا تو یہ بھارت کیلئے مزید خجالت کا باعث بنے گا جس سے بہتر ہوگا کہ وہ ایسے اقدامات سے گریز کرے جس سے تصادم کی نوبت آئے۔بھارت کو اس موقع پر اپنی داخلی سکیورٹی کی ناکامی اور اس طرح کے واقعے کے پیش آنے پر خود احتسابی پر توجہ دینی چاہیے اور ان حالات و واقعات اور خاص طور پر مقبوضہ کشمیر میں اپنے مظالم کا جائزہ لینا چاہیے جس کے رد عمل میں اس طرح کے واقعات کے رونماء ہونے کا خطرہ رہتا ہے بہتر ہوگا کہ دونوں ممالک کی حکومتیں صبر و تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کریں اور حالات کو کشیدگی کی جانب لے جانے کی بجائے سفارتی طور پر حل تلاش کرنے کی سعی کریں بھارت اب تک جن اقدامات کا اعلان کر چکا ہے ان پر نظر ثانی کرے اور حالات کو اعتدال پر رکھنے کی ذمہ داری نبھائے بھارت کی جانب سے کسی بھی قسم کی غلطی سے خطے میں جنگ کے بادل منڈلا سکتے ہیں اور علاقائی امن خطرے میں پڑ سکتا ہے جس سے جس قدر بچا جا سکے یہی خطے اور دونوں ممالک کے مفاد میں بہتر ہوگا۔

مزید پڑھیں:  اچھے لگتے ہیں مجھے لوگ تمہارے جیسے