تین خونی، لاحاصل اور کھلی جنگوں 1948، 1965 اور1971اور تین شدید محدود فوجی محاذ آرائیوں 1986-87 ( راجھستان )(2001) (کارگل)2019(پلوامہ کشمیر)کے بعد اب2025 میں پہلگام کشمیر میں 26 بے گناہ مسلم و ہندو سیاحوں کے سفاکانہ قتل کے بعد برصغیر کی دو ایٹمی طاقتیں ہندوستان اور پاکستان ایک بار پھر آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ کسی بھی لمحے ہزاروں سال قدیم گنگا اور جمنا اور سندھ و ہڑپہ کی تہذیبیں ناگا ساگی اور ہیرو شیما کی تاریخ دہرا دیں گی۔ ہندوستان کے میڈیا کو خاص طور پر یہ اعزاز جاتا ہے کہ وہ سیاحوں کے قتل کے واقعے کو کچھ اس طرح آگے بڑھا رہا ہے جس طرح عراق کے مرد آہن صدام حسین کے خلاف مغربی میڈیا نے اس قدر پروپیگنڈا پھیلایا کہ پہلی خلیج کی جنگ چھڑ گئی اور بعد میں پتہ چلا کہ جنگ میں فوج کا کردار کم میڈیا کا زیادہ تھا۔ ہندوستان کے وزیراعظم نریندرا مودی کے ریاست بہار کے خطاب اور امریکی صدر بش جونیئر کے نائن الیون کے واقعے کے بعد افغانستان پر اعلان جنگ کے خطاب میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ بش جن مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دے کر ان کو غاروں سے نکال کر مارنا چاہتے تھے، مودی یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ زمین کی اتھاہ گہرائیوں تک ان دہشت گردوں کا پیچھا کریں گے جنہوں نے پہلگام میں سیاحوں کا قتل کیا۔ ڈاکٹر ھنری کسنجر نائین الیون کے بعد ایسی تمام ریاستوں کو دنیا کے نقشے سے مٹانے کے خواہاں تھے جو دہشتگردی میں ملوث ہیں اور مودی پاکستان کے ساتھ اب 1971 کی تاریخ دہرانے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اب کیا ہونے والا ہے ؟ اس چوتھی ہندو پاک کشیدگی کا اونٹ کس کروٹ بیٹھنے والا ہے یا یہ اسی طرح صحرا میں دوڑتا چلا جائے گا؟ ہندوستان کے میڈیا پر آنے والے جنگی جنون سے بھرپور تجزیے سننے کے بعد یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ وہاں کے اینکرز اور میڈیا کے مالکان مکمل جنگ کرانے کے حق میں ہیں لیکن وہاں موجود سینئر فوجی افسران اور سینئر ریٹائرڈ سفارت کار جس قسم کے بیانات دے رہے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ لوگ مکمل جنگ کے حق میں ہرگز نہیں ہے لیکن وہ ان تمام باتوں کا فیصلہ ملک کی سیاسی و فوجی قیادت پر چھوڑنا چاہتے ہیں ۔ پاکستان میں بھی حکومت پاکستان اور میڈیا کا جواب سخت لیکن اپنے موقف کو سنبھال کر متانت کے ساتھ پیش کرنے کا ہے اور ابھی تک جذباتی بیانات نے دانش کو یر غمال نہیں بنایا ہے ۔ جنگوں کے بعد بھی اور کشیدگی کے شدید ادوار میں بھی پاکستان اور انڈیا میں ہمیشہ دیگر ریاستوں کی طرح دروازے کے عقب میں بیٹھے سینئر وریٹائرڈ سفارت کار فوجی افسران انٹیلیجنس کے لوگ مشترکہ کاروباری مفادات رکھنے والی شخصیات سامنے آتی رہیں اور بیک چینل یا ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے ذریعے معاملات کو کسی تباہ کن انجام تک پہنچنے سے بچاتی رہیں۔ لیکن اب صورتحال بہت مختلف ہے اس بار جب کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں ریاستوں نے ایک دوسرے کے گریبانوں کو پکڑ لیا ہے شاید چھڑانے والے لوگ غیر حاضر ہیں ۔ دونوں جانب موجود نیوکلیائی کلب کی روایات پر یقین رکھنے والے لوگ ہمیشہ رہے ہیں جن کا ایمان تھا کہ ایٹم بم ایک ہوا اور ڈرا دینے والا خوف تو ہے لیکن اس کا استعمال کسی بھی طرح انسانیت کے حق میں نہیں ۔ معلوم نہیں اس بار ٹریک ٹو ڈپلومیسی کا راستہ کیسے اور کیوں اور کس نے مسدود کر دیا ہے۔ شاید اس کی ایک وجہ ہندوستان کا غیر معمولی طور پر بین الاقوامی برادری میں معاشی و سیاسی طور پر آگے بڑھ جانا اور پاکستان کا اسی تناسب سے پھسل پنڈے پر نیچے آ جانا ہے۔ یہاں تک کہ وہ مسلم امہ کے ملک جن کے لیے پاکستان نے اپنی بری و فضائی افواج عرب اسرائیل اور خلیج کی جنگوں میں دیں، وہ اب ہندوستان کے زیادہ اور پاکستان کے دوست کم ہیں۔ برصغیر کے ان اطفالِ نِیم شب کے ہاں اب وہ نسل ختم ہو چکی ہے جس نے اگر 1948، 1965 اور 1971 کی جنگیں لڑیں یا سندھ طاس اورشملہ معاہدے پر دستخط کیے تو ان کی پہلی شناخت ایک مشترکہ ملٹری اکیڈمی یا ایک سول سروس انسٹیٹیوٹ تھا۔ اس لیے ان حالات میں ٹریک ٹو ڈپلومیسی یا دروازے کے عقب سے کی جانے والی کوششوں اور مشترکہ سوچ رکھنے والے عناصر کا منظر نامے سے غائب ہونا کوئی انہونی بات نہیں۔ ان حالات میں ایک صورت تو شاید یہ ہوجائے کہ ایران اسرائیل فوجی جھڑپ کی طرح دونوں ملکوں میں کچھ مخصوص جگہوں پر میزائل اور ایئر سٹرائکس ہو جائیں۔ اڑوسی۔ پڑوسی ہونے کی وجہ سے یہ بھی ممکن ہے کہ بعض جگہوں پر کراس فائر بھی ہو لیکن مکمل جنگ کی نوبت شاید نہیں ائے۔ یہ جھڑپیں یہاں کے پیدا کردہ جنگی بخار کو کم کرنے میں بڑا کردار ادا کریں گی ۔دوسری شکل زیادہ اھم ہے اور اس میں برادر اسلامی ملک سعودی عرب اور قطر کا کردار اہم دکھائی دیتا ہے مغربی ایشیا اور مڈل ایسٹ میں سعودی عرب نے اس وقت جو قائدانہ رول اختیار کر لیا ہے اور جس طرح سیاسی و تزویراتی ڈھانچے میں سعودی عرب کا مقام یہاں بن رہا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس بار ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے راستے پر سعودی اور قطری چل کر آئیں گے۔ ان کے تعلقات کی جو نوعیت ہندوستان اور پاکستان کے ساتھ ہے اس کا اپنا ایک بڑا کردار ہے اور یقینا اس سے پہلے کہ برصغیر کی یہ دو ایٹمی طاقتیں آپس میں ٹکرا جائیں یقینی طور پر سعودی عرب کے سرگرم و مصالحانہ کردار سے معاملات کھلی اور مکمل جنگ تک شاید نہ جائیں۔ ہندوستان کے وزیراعظم نریندرا مودی اگر آج صدر بش جونیئر کا لب و لہجہ اپنا رہے ہیں تو ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس کے بعد امریکیوں کا انجام افغانستان میں کیا ہوا؟ ان کو صدر بائیڈن کا سا مصالحانہ انداز اپنانا ہوگا۔
