حالات جس تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں ‘ ان کے حوالے سے کوئی حتمی رائے قائم کرنے میں خاصی دشواری ہو رہی ہے اور یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ آنے والے لمحات میں صورتحال کیا انگڑائی لے سکتی ہے تاہم مسئلے کی جزئیات سے ہٹ کر اس کے پس منظر پر تھوڑی بہت روشنی ڈالی جا سکتی ہے’ ا ور جہاں تک بنیادی مسئلے کا تعلق ہے تو اس کے ڈانڈے ماضی میں کئے جانے والے کچھ ایسی نوع کے اقدامات میں جا کر پیوست ہوتے دکھائی دیتے ہیں ماضی پر اگر گہری نظر رکھ کر معاملات کو کریدنے کی کوشش کی جائے تو اس قسم کے ”فالس فلیگ” اقدامات بے نقاب ہونے اور بھارتی پر دھان منتری اور ان کی برسراقتدار جماعت کے مذموم مقاصد سامنے آکر کھڑے ہو جاتے ہیں بھارت میں جب بھی ریاستی انتخابات ہوں یا پھر لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے ملک گیر انتخابات ‘ مودی سرکار جھوٹ موٹ کے الزامات لگا کر بھارتی عوام کو جذباتی بلیک میلنگ کا نشانہ بنانے سے کبھی نہیں چوکتی ‘ اس وقت بھی ریاست بہار میں ریاستی سطح کے انتخابات میں دستیاب معلومات کے مطابق بی جے پی کو سخت ہزیمت کا سامنا ہے ‘ اور ایسے مواقع پر ماضی میں بھی لگ بھگ اسی قسم کے ”خود ساختہ” اور یکطرفہ اقدامات سے پاکستان پر بے بنیاد الزامات لگا کر اقتدار پر قبضہ جمانے کی کوشش کوئی نئی بات نہیں ہے ‘ یہاں تک کہ ”ضرورت”پڑنے پر پاکستان پر فضائی حملہ کرنے سے بھی بھارتی حکومت نہیں چوکی ‘ مگر نہ صرف اس کو منہ کی کھانی پڑی بلکہ بعد میں اصل حقائق سامنے آنے کے بعد اسے سخت ترین شرمندگی کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن مودی حکومت کے ڈھیٹ پن کے سامنے سب کچھ ہیچ ہی ٹھہرتا رہا ہے ‘ اب ایک بار پھرمقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں جوواقعہ پیش آیا اور جس میں مبینہ طور پر اموات بھی ہوئیں اور کچھ لوگ زخمی بھی ہوئے جبکہ اس حوالے سے بھارتی میڈیا نے حسب عادت ‘ روایت اور سابقہ بیانیوں کو دوہراتے ہوئے بغیر تحقیق کے واقعے کے فوراً بعد تمام تر الزامات پاکستان پر دھرتے ہوئے جس طرح زہر اگلنا شروع کیا پورے بھارت میں پاکستان کے خلاف الزامات کی بوچھاڑ شروع کی ‘ وہ تو خیر بھارتی میڈیا کا روایتی کردار ہی ہے مگر جوش جذبات میں بھارتی میڈیا کو اتنا ہوش بھی نہیں رہا کہ اس نے ایک بھارتی نیول آفیسر اور ان کی اہلیہ کی تصاویر لگا کر محولہ حملے میں ان کی موت کا جو دعویٰ کیا چند گھنٹے بعد ہی ان دونوں میاں بیوی نے اس پروپیگنڈہ کو جھوٹا بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ تو زندہ ہیں اور بھارتی میڈیا کی اس غلیظ حرکت کی وجہ سے نہ صرف ان کے لئے ذاتی طور پر بلکہ ملک کے مختلف حصوں میں موجود ان کے عزیز و اقارب کے لئے خاصی پریشان کن صورتحال پیدا کر دی ہے ممکن ہے کہ ان سطور کے شائع ہونے تک بھارتی میڈیا کا مزید جھوٹ بھی سامنے آجائے ‘ بہرحال بھارت نے بغیر سوچے سمجھے اس واقعے پر ردعمل دیتے ہوئے نہ صرف پاکستان کے ساتھ سفارتی سطح کے تعلقات ختم کرنے پاکستان میں اپنے سفارتی عملے کو واپسی کے احکامات دینے اور پانی کے سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے کے علاوہ دیگر انتہا پسندانہ اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا جسے پاکستان نے جنگی اقدام قرار دیتے ہوئے جوابی اقدامات شروع کر دیئے پاکستان نے بھارت کیلئے پاکستانی فضائی حدود (فی الحال) ایک ماہ کے لئے بندکرنے ‘ واہگہ اور اٹاری بارڈر پرآمدورفت پرپابندی لگانے ‘ جبکہ باہمی تجارت پر روک لگانے کا فیصلہ کیا اور اطلاعات کے مطابق پاکستان پر بھارت کی جانب سے پانی کی جارحیت مسلط کرنے کی صورتحال سے نمٹنے کے لئے افواج کو ہائی الرٹ پر رکھتے ہوئے میزائل پروگرام کے لئے ”اہداف ” مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے پاکستان نے سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معلط کرنے کو بین الاقوامی قوانین کے منافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت اس معاہدے کو یکطرفہ طور پر ختم نہیں کر سکتا اور اس حوالے سے متعلقہ عالمی فورم سے رجوع کیا جائے گا بقول شاعر
کتنا مشکل ہے محبت کی کہانی لکھنا
جیسے پانی پہ پانی سے ہی پانی لکھنا
پاکستان کی جانب سے بھارتی طیاروں کے لئے فضائی حدود بند کر دینے کے فیصلے کے بعد نہ صرف بھارتی طیاروں کو مختلف ملکوں سے روابط کے لئے طویل راستہ اختیار کرنا پڑے گا جس سے اس کے ا خراجات بڑھیں گے بلکہ وقت بھی ضائع ہوگا جبکہ تجارتی سرگرمیاں معطل ہونے سے وسط ایشیائی ریاستوں اور تقریباً نصف یورپی ممالک کے ساتھ تجارت بری طرح متاثر ہو گی ‘ اس ضمن میں افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تجارتی روابط کے لئے بھارت اور متعلقہ ممالک کو ایرانی بندر گاہ چاہ بہار کے ذریعے تجارتی لیکن دین پر عمل کرنا پڑے گا اس سے بھی نہ صرف وقت کا ضیاع ہوگا بلکہ اخراجات بھی تین گنا سے زیادہ بڑھ جائیں گے ۔ بقول سجاد بابر مرحوم
اک ہوا اٹھے گی سارے بال و پر لیجائے گی
یہ نئی رت اب کے سب کچھ ساتھ ہی لے جائے گی
جہاں تک بھارتی حکومت اور بھارتی میڈیا کے بے بنیاد الزامات کا تعلق ہے تو اس حوالے سے پاکستان کے تجزیہ کاروں کو تو ایک طرف رکھئے خود بھارتی میڈیا پر جو تبصرے عام لوگ کر رہے ہیں اور تیزی سے وائرل ہو رہے ہیں ان پر غور کیا جائے توبھارت کی جانب سے اس ”فالس فلیگ” منصوبے کی حقیقت سامنے آجاتی ہے ‘ بھارتی میڈیا پر ایک خاتون نے سوال اٹھایا ہے کہ پہلگام کشمیر بارڈر سے چار سو کلو میٹر کے فاصلے پر ہے تو دہشت گرد اتنے جدید اسلحے کے ساتھ لاتعداد فوجی اور پولیس چوکیوں کو اتنی آسانی سے کیسے عبور کرتے ہوئے اتنی دور تک گئے ‘ اور کیا راستے کے دوران ان سے کسی بھی سیکورٹی ادارے کے اہلکاروں نے کوئی تعرض نہیں کیا؟ ادھر بھارتی حکومت مخالف سیاسی جماعتوں خصوصاً کانگریس کے رہنمائوں نے اسے بھارتی سیکورٹی اداروں کی ناکامی سے تعبیر کرتے ہوئے خفیہ اداروں کی کارکردگی پر سوال اٹھائے ہیںجبکہ سیکورٹی کی اس ناکامی کو بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے بھی پارلیمنٹ کے دوران تسلیم کر لیا ہے ۔سوال تو اپنی جگہ بہت اہم ہیں کہ پہلگام کوئی بارڈر ایریا کے قریب تو نہیں جہاں مبینہ ”آتنک واد” یعنی دہشت گرد آسانی سے داخل ہو سکیں ‘ بلکہ یہ تو چار سو کلو میٹر دور واقع ہے یوں اگر واقعی حقیقی دہشت گرد ہی وہاں پہنچ گئے تھے تو یہ بھارتی سیکورٹی اداروں کی سخت ناکامی ہے جواتنے دہشت گردوں کو طویل سفر کے دوران ٹریس نہیں کر سکے ‘ اس کا واضح مطلب یہ بنتا ہے کہ یہ واردات خود بھارتی خفیہ اداروں کی اپنی کارستانی ہے اور انہوں نے حالیہ دنوں میں جس طرح پاکستان میں خصوصاً بلوچستان میں بی ایل اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ مل کر تخریبی کارروائیاں کیں اور پاکستان نے ان کو عالمی سطح پر بے نقاب کیا تو اس داغ کو دھونے کی ناکام کوشش میں بھارتی حکومت اپنے دعوئوں کے اندر خود پھنس گئی ہے اور حالات کو خراب کرکے پاکستان کے ساتھ الجھنے کی غلطی کر بیٹھی ہے بات کے اور بھی کئی پہلو ہیں مگر کالم کا دامن تنگ ہونے کی وجہ سے فی الحال اتنا ہی کہ بقول ڈاکٹر راحت اندوری
مجھ کو رونے کا سلیقہ بھی نہیں ہے شاید
لوگ ہنستے ہیں مجھے دیکھ کے آتے جاتے
