ویب ڈیسک: ہمسایہ ممالک سے کشیدگی پر جمہوریت کا دعویدار بھارت خطے میں عدم استحکام کا ذمہ دار قرار دیدیا گیا۔ اس تناظر میں کئی ایک مثالیں دی جا سکتی ہیں۔
گزشتہ پانچ برس کے دوران بھارت نے نہ صرف پاکستان بلکہ کینیڈا، چین، نیپال،بنگلہ دیش اور سری لنکا کے ساتھ بھی سنگین سفارتی اور سرحدی تنازعات پر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق 22 اپریل کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام حملے میں 26 سیاحوں کی ہلاکت کا الزام بھارت نے پاکستان پر عائد کیا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات ایک بار پھر کشیدہ ہوگئے، بھارت نے سندھ طاس معاہدہ معطل کرتے ہوئے پاکستانی سفارت کاروں کو ملک بدر کیا اور دو طرفہ تجارت بھی بند کر دی،جواب میں پاکستان نے اپنی فضائی حدود بھارتی طیاروں کے لیے بند کر دی۔
اس سے قبل جون 2023 میں لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے تبادلے میں دو پاکستانی شہری جاں بحق ہوگئے تھے، جو2021 کے سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی تھی، اسی طرح 2020 اور 2021 میں بھی سرحدی جھڑپوں کے نتیجے میں درجنوں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔
بھارت اور کینیڈا کے درمیان تعلقات بھی شدید تناؤ کا شکار رہے جون 2023 میں کینیڈین سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے بعد کینیڈین وزیرِاعظم جسٹن ٹروڈو نے الزام عائد کیا کہ بھارت اس قتل میں ملوث ہے جس کے بعد دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے سفارتکاروں کو ملک بدر کر دیا تھا، بھارت نے کینیڈین شہریوں کے لیے ویزا سروس معطل کر دی اور دونوں ممالک کے درمیان تجارتی مذاکرات بھی روک دیئے گئے تھے۔
دسمبر 2022 میں بھارت اور چین کی فوجیں اروناچل پردیش کے علاقے یانگتسے میں آمنے سامنے آئیں، جہاں دونوں جانب سے کئی فوجی زخمی ہوئے ،یہ تصادم 2020 میں وادی گلوان کی جھڑپ کے بعد سب سے بڑا سرحدی تنازعہ تھا، نیپال نے بھی 2020 میں ایک نیا سیاسی نقشہ جاری کر کے بھارت کے زیر انتظام علاقوں کالا پانی، لیپو لیکھ اور لمپیادھورا پر دعویٰ کیا جس پر دونوں ممالک کے درمیان شدید سفارتی تنازع شروع ہو گیا۔
علاوہ ازیں سری لنکا میں چینی سرمایہ کاری کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر بھارت نے اپنی تشویش کا اظہار کیا جس نے دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید تناو پیدا کیا،ان تمام تنازعات سے بھارت کی خارجہ پالیسی میں سخت گیر رویے کی جھلک نمایاں ہوتی ہے جبکہ خطے میں بڑھتی ہوئی عدم استحکام کی صورتحال پر عالمی برادری بھی گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔
