اے پی سی میں شرکت

اے این پی کی اے پی سی میں شرکت پر پی ٹی آئی رہنمائوں میں اختلافات آشکار

ویب ڈیسک: اے این پی کی اے پی سی میں شرکت پر پی ٹی آئی رہنمائوں میں اختلافات سامنے آنے لگے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق عوامی نیشنل پارٹی کی مائنز اینڈ منرل بل سے متعلق طلب آل پارٹیز کانفرنس میں پی ٹی آئی وفد کی شرکت کی وجہ سے پی ٹی آئی میں اختلافات کا انکشاف ہوا ہے۔
سابق گورنر شاہ فرمان اور وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کے اعتراض کرنے پر جنید اکبر نے معذرت کرتے ہوئے اپنے فیصلے کا دفاع کیا ہے، پارٹی کے سیاسی اور پارلیمانی گروپ میں بھی پی ٹی آئی رہنمائوں نے اعتراضات کئے گئے ہیں اورعوامی نیشنل پارٹی کی آل پارٹیز کانفرنس میں پی ٹی آئی وفد بھیجنے پر شکوہ کیا گیا اور سوال کیا کہ کس سے پوچھ کر وفد کانفرنس میں بھیجا گیا؟
اے این پی عمران خان اور انکی اہلیہ سے متعلق نازیبا گفتگوکرتی ہے، اس جماعت کی صوبے میں کوئی اہمیت نہیں پھر بھی وہاں وفد بھیجا گیا جس پر جنید اکبر نے جواب دیتے ہوئے تسلیم کیا کہ سیاسی کمیٹی سے اجازت طلب کئے بغیر وفد بھیجا گیا جس پر معذرت کرتے ہیں تاہم آل پارٹیزکانفرنس میں پی ٹی آئی کا بیانیہ تسلیم کیا گیا، رجیم چینج کا حصہ جماعتوں نے سیاست میں فوج کے کردار کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا جو ہمارے موقف کی تائید ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایس آئی ایف سی کو ان جماعتوں نے غیر قانونی اور غیر آئینی قراردیاجنہوں نے اس کو خود بنایا ہے اس لئے وفد بھیجنے کا فیصلہ درست تھا، وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین نے شکوہ کیا اور کہا کہ ایوان میں اے این پی کے صرف دو ممبرز ہیں وہ چاہیں بھی تو اس بل کو نہیں روک سکتے اور نہ ہی و ہ اس کو پاس کراسکتے ہیں، اس بل کو روکنے کا کریڈٹ صرف پی ٹی آئی کو جاتا ہے اور اگر پی ٹی آئی اس کو پاس بھی کرتی ہے تو وہ بھی پی ٹی آئی کاکریڈٹ ہوگا۔
علی امین نے کہا کہ اے این پی دوغلا پن کررہی ہے بلوچستان میں قانون متفقہ طور پر منظور کرالیا گیا اور اب یہاں انکار کررہی ہے وفد بھیج کر اے این پی کا پلڑا بھاری کیا گیا،صوبے میں 90فیصد سے زائد مینڈیٹ پی ٹی آئی کا ہے اس لئے ہمیں دوسری پارٹی کے پلڑے میں وز ن نہیں ڈالناچاہئے۔ یاد رہے کہ اے این پی کی اے پی سی میں شرکت پر پی ٹی آئی رہنمائوں میں اختلافات سامنے آنے لگے ہیں۔

مزید پڑھیں:  اداروں کیخلاف پروپیگنڈا کرنیوالے ملازمین کی گرفتاری کا فیصلہ