ویب ڈیسک: خیبر پختونخوا کے سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹرز نے من مانی فیسیں مقرر کردیں، جس سے عوام خوار ہونے لگے۔
تفصیلات کے مطابق خیبرپختونخوا کے سرکاری ہسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں نے سرکاری قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی مرضی کی فیسیں مقرر کردی ہیں، جہاں 1981 کے سرکاری اصولوں کے مطابق ڈاکٹروں کی فیسیں 10 روپے سے 50 روپے تک مقرر کی گئی تھیں، وہیں آج کل ڈاکٹرز 5ہزار روپے تک کی بھاری فیسیں وصول کر رہے ہیں، جس سے عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
خیبر پختونخوا کے ڈاکٹرز ان گورنمنٹ سروس پرائیویٹ پریکٹس رولز کے مطابق گریڈ 17 کے میڈیکل آفیسرز کیلئے 10 روپے فی مریض،گریڈ 18 کے میڈیکل آفیسرز کیلئے 15 روپے فی مریض،ڈسٹرکٹ سپیشلسٹ گریڈ 20 ،اسسٹنٹ پروفیسر کی فیس30روپے، ایسوسی ایٹ پروفیسر کی فیس40اور پروفیسرز کیلئے 50 روپے فی مریض مقرر تھی۔
اس طرح ایک ہی بیماری کیلئے دوسری وزٹ کی فیس پہلی وزٹ سے آدھی مقرر کی گئی ہے، اس قانون کے تحت پرائیویٹ پریکٹس کا وقت سرکاری ڈیوٹی کے بعد مخصوص تھا جس کے مطابق سردیوں میں 3 بجے سے 6 بجے تک اور گرمیوں میں اوقات 4بجکر30 منٹ سے 7بجکر30 منٹ تک مقرر تھے۔
دوسری طرف سرکاری رولز کے برعکس ڈاکٹرز 1ہزار روپے سے 5ہزار روپے تک فی مریض وصول کر رہے ہیں، اگرچہ 1981 سے اب تک مہنگائی میں بہت اضافہ ہوا ہے لیکن ڈاکٹروں نے فیسیں خودساختہ طور پر1ہزار سے پانچ سو گنا تک بڑھا دی ہیں، اس سلسلے میں نگران کمیٹی غیر فعال ہے جس کی وجہ سے کلینکس کرنے والے ڈاکٹرز کھل کر عوام کو لوٹ رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق کم آمدنی والے افراد کو مہنگی فیسیں ادا کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے جس سے وہ علاج سے محروم ہیں، اگر 1982 کی فیس 50 روپے کو موجودہ مہنگائی 6ہزار فیصد اضافے کے حساب سے اپڈیٹ کیا جائے تو آج کی فیس زیادہ سے زیادہ 3ہزار روپے بنتی ہے لیکن ڈاکٹرز 5ہزار روپے تک وصول کر رہے ہیں، جو کہ غیر قانونی ہے۔
دوسری جانب عالمی سطح پر ڈاکٹرز کی فیسیں طے کرنے کیلئے ایک معیار اپنا یا جاتا ہے، جس میں ملکی معاشی حالات بھی ایک پیمانہ ہے، جس کے تحت ترقی یافتہ ممالک میں فیسیں زیادہ جبکہ ترقی پذیر ممالک میں کم ہوتی ہیں۔ ماہرین کی قلت یا فراوانی کے حساب سے بھی فیسیں مقررکی جاتی ہیں جس شعبے میں ڈاکٹرز کی کمی ہو فیسیں زیادہ وصول کی جاتی ہیں، جبکہ سرکاری و پرائیویٹ سیکٹر کا فرق بھی واضح ہوتا ہے۔
سرکاری ہسپتالوں میں فیسیں سبسڈائزڈ ہوتی ہیں جبکہ پرائیویٹ کلینکس مہنگے ہوتے ہیں یہاں پر حال یہ ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں بھی مارکیٹ ریٹ کے مطابق فیسیں وصول کی جارہی ہیں، حالانکہ امریکہ اور یورپ جیسے ممالک میں میڈیکل انشورنس کے تحت فیسیں ادا کی جاتی ہیں۔
بین الاقوامی تنظیموں کی گائیڈلائنز کے مطابق ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن جیسی تنظیمیں ترقی پذیر ممالک کیلئے معیاری فیسیں تجویز کرتی ہیں لیکن خیبر پختونخوا میں یہ ذمہ داری ڈاکٹرز نے سنبھال رکھی ہے اور محکمہ صحت خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ یاد رہے کہ خیبر پختونخوا کے سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹرز نے من مانی فیسیں مقرر کردیں، جس سے عوام خوار ہونے لگے۔
