ویب ڈیسک: خیبر پختونخوا میں خاندانی منصوبہ بندی ندارد، آبادی کا بم پھٹنے کو تیار، مسائل مزید الجھ جائیں گے۔
محکمہ صحت کی جانب سے اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود خیبر پختونخوا میں خاندانی منصوبہ بندی کو فروغ نہیں دیا جاسکا، صوبے کے مراکز صحت میں خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات سے فائدہ اٹھانے والے جوڑوں کی شرح کم ہونے لگی ہے۔
آبادی میں اضافے کی وجہ سے وسائل کی کمی اور غربت جیسے مسائل مزید گھمیر ہو نے لگے ہیں، اعدادوشمار کے مطابق صوبہ بھر میں صرف 25 لاکھ7ہزار96 جوڑوں نے خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات استعمال کی جن کی شرح4.48فیصد بنتی ہے جبکہ 57لاکھ43ہزار جوڑوں کو16.94فیصد تناسب کے ساتھ خاندانی منصوبہ بندی کی ضرورت تھی۔
خیبر پختونخوا کی آبادی سعودی عرب اور افغانستان جیسے بڑے رقبے والے ممالک سے زیادہ ہوگئی ہے، خاندانی منصوبہ بندی میں ضلع شانگلہ سب سے آگے ہے جہاں پر34.53 فیصد جوڑوں نے خدمات حاصل کیں، بٹگرام،کوہستان،کولائی پالس اور وزیرستان سب سے پیچھے ہیں جہاں پر دو فیصد سے بھی کم جوڑوں نے خاندانی منصوبہ بندی کی سہولت سے فائدہ اٹھایا۔
جنوبی اور شمالی وزیرستان میں خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات کا استعمال صفر فیصد رہا ہے،محکمہ صحت کے ذرائع نے بتایا کہ خاندانی منصوبہ بندی کے جدید طریقوں میں کنڈوم سب سے آسان اور مؤثر طریقہ مانا جاتا ہے لیکن صوبے بھر میں اس کی رسائی اور استعمال کی شرح ناکافی ہے۔
اس سلسلے میں کئی وجوہات اورچیلنجز کاسامنا ہے جس میں خاندانی منصوبہ بندی کو حساس موضوع سمجھا جا نا بھی شامل ہے ،منصوبہ بندی کی خدمات تک محدود رسائی اور دور دراز علاقوں میں صحت مراکز کی کمی اورآگہی کا فقدان بھی آبادی میں اضافہ کی بڑی وجوہات ہیں۔
محکمہ صحت سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کوعوامی آگہی مہم چلانے،دور دراز علاقوں میں خدمات کی فراہمی یقینی بنانے، اورمذہبی اور معاشرتی رہنماؤں کو شامل کرتے ہوئے اس حوالے سے مثبت گفتگو کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
خیبر پختونخوا میں آبادی کے بے ہنگم اضافے کو کنٹرول کرنا ہے تو خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات کو عام کرنا ہوگا بصورت دیگر وسائل کی کمی اور غربت جیسے مسائل مزید گھمیر ہو جائیں گے۔ یاد رہے کہ خیبر پختون خوا میں خاندانی منصوبہ بندی کا دور دور تک نام و نشان نہیں، جس کی وجہ سے آبادی کا بم پھٹنے کو تیارہے۔
