ویب ڈیسک: پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ایکٹ نے ہیلتھ فائونڈیشن کو بے اثر کردیا، تفصیلات کے مطابق خیبر پختونخوا پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ایکٹ 2020 اور خیبر پختونخوا ہیلتھ فائونڈیشن ایکٹ 2016 میں تضادات ہیلتھ فائونڈیشن کے اقدامات اور پالیسی کے مؤثر نفاذ میں رکاوٹ بن گئے ہیں۔
واضح رہے کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ایکٹ 2020 کے تحت تمام پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے منصوبوں کی منظوری اور نگرانی کا اختیار پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کمیٹی کے پاس ہے، جس کی سربراہی وزیراعلیٰ کرتے ہیں ، جبکہ ہیلتھ فائونڈیشن ایکٹ 2016 کے تحت صحت کے شعبے میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے منصوبوں کی منظوری اور نگرانی کا اختیار ہیلتھ فائونڈیشن کے بورڈ کے پاس ہے ، جس کی سربراہی غیر سرکاری ممبران کرتے ہیں۔
دونوں ادارے اپنے اپنے قوانین کے تحت اختیارات استعمال کرتے ہیں جس سے مرکزی پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کمیٹی اور ہیلتھ فائونڈیشن کے درمیان اختیارات کی کشمکش پیدا ہوتی ہے، یوں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ایکٹ نے ہیلتھ فائونڈیشن کو بے اثر کردیا۔
پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ایکٹ 2020 کے سیکشن 29 کے تحت اس ایکٹ کے دفعات کو دیگر قوانین پر فوقیت حاصل ہے، یعنی صحت کے شعبے میں بھی پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کمیٹی کی منظوری ضروری ہونی چاہئے، لیکن ہیلتھ فائونڈیشن ایکٹ کے سیکشن 8 بی میں واضح کیا گیا ہے کہ صحت کے منصوبوں کیلئے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ایکٹ 2014 جو کہ اب منسوخ ہوچکا ہے کے بجائے ہیلتھ فائونڈیشن اپنے قوانین کے تحت کام کرے گی۔
ذرائع کے مطابق ہیلتھ فائونڈیشن اپنی خودمختاری برقرار رکھنا چاہتی ہے جبکہ پی پی پی ایکٹ 2020 اسے مرکزی پی پی پی کمیٹی کے تابع بناتا ہے مثلا پی پی پی ایکٹ 2020 کے تحت وائے بلٹی گیپ فنڈ یعنی عملداری میں تاخیر کیلئے فنڈ اور رسک مینجمنٹ یونٹ جیسے ادارے قائم کئے گئے ہیں جو تمام پی پی پی منصوبوں کیلئے مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔
دوسری طرف ہیلتھ فائونڈیشن ایکٹ کے تحت الگ فنڈ اور ٹیکنیکل کمیٹی قائم کی گئی ہے جو صحت کے منصوبوں کو خود مختار طور پر منظم کرتی ہے اس طرح دونوں قوانین کے تحت الگ الگ مالیاتی اور انتظامی ڈھانچے موجود ہیں، جس سے وسائل کی تقسیم اور احتساب میں مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔
ادھر پی پی پی ایکٹ 2020 کا سیکشن 29 واضح کرتا ہے کہ اس ایکٹ کی دفعات کو دیگر قوانین پر فوقیت حاصل ہے جبکہ ہیلتھ فائونڈیشن ایکٹ کا سیکشن 8بی کہتا ہے کہ صحت کے شعبے میں پی پی پی ایکٹ 2014 جو پی پی پی ایکٹ 2020 سے پہلے کا قانون تھا کی روح کو برقرار رکھا جائے گا۔
اس تناظر میں عدالتی یا انتظامی سطح پر یہ طے کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ کون سا قانون لاگو ہوگا جبکہ قوانین کی رپورٹنگ اور احتساب کے طریقہ کار میں بھی فرق واضح ہے، مثلاپی پی پی ایکٹ 2020 کے تحت تمام منصوبوں کی رپورٹنگ پی پی پی یونٹ کو کرنی ہوتی ہے جبکہ ہیلتھ فائونڈیشن ایکٹ کے تحت رپورٹس براہ راست ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ اور بورڈ آف گورنرز کو جمع کروائی جاتی ہیں۔
ان تضادات کی وجہ سے ہیلتھ فائونڈیشن ایکٹ مؤثر طریقے سے لاگو نہیں ہو پا رہا ہے کیونکہ اختیارات کی کشمکش اور تنظیمی ڈھانچے کا واضح نہ ہونا،مالیاتی وسائل اور انتظامی عمل میں تصادم،قانونی فوقیت کے تنازعات ہیں، اس مسئلے کے حل کیلئے ضروری ہے کہ دونوں قوانین میں ہم آہنگی پیدا کی جائے ،صحت کے شعبے میں پی پی پی منصوبوں کیلئے ہیلتھ فائونڈیشن کو پی پی پی کمیٹی کے ساتھ مربوط کیا جائے اورعدالتی یا قانونی رہنمائی کے ذریعے واضح کیا جائے کہ کون سا قانون فوقیت رکھتا ہے۔
