مرے کو مارے شاہ مدار

صوبے میں جہاں سرکاری نرخنامے کی پابندی کرنا اور کرانا دونوں ہی ناممکنات میں سے ہو گیا ہے لوگوں کی شکایات کے باوجود اور انتظامیہ کے دعوئوں کے برعکس ہی من مانے ریٹ کی وصولی ہوتی ہے انتظامیہ گوشت ‘ سبزی اور پھلوں کے ریٹ تو مقرر کرتی ہے مگر عملدرآمد کی زحمت گوارہ نہیں کی جاتی شہر میںہر درزی کا الگ ریٹ مقرر ہے مگر پوچھنے والاکوئی نہیں تندور مالکان سے تو انتظامیہ ہر وقت دبائو میں رہتی ہے ایسے میں صوبے کے کسی ماہر اور قابل ڈاکٹر کا پانچ ہزار روپے فی تشخیص اور وہ بھی مشروط وصول کرنا چنداں اچھنبے کی بات نہیں۔ ہمارے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق ڈاکٹروں نے فیسیں خودساختہ طور پر1ہزار سے پانچ سو گنا تک بڑھا دی ہیں اس سلسلے میں نگران کمیٹی غیر فعال ہے جس کی وجہ سے کلینکس کرنے والے ڈاکٹرز کھل کر عوام کو لوٹ رہے ہیں 1982 میں فیس 50 روپے کو موجودہ مہنگائی کے حساب سے اپڈیٹ کیا جائے تو آج کی فیس زیادہ سے زیادہ 3ہزار روپے بنتی ہے لیکن ڈاکٹرز 5ہزار روپے تک وصول کر رہے ہیں دوسری جانب عالمی سطح پر ڈاکٹرز کی فیسیں طے کرنے کیلئے ایک معیار اپنا یا جاتا ہے جس میں ملکی معاشی حالات بھی ایک پیمانہ ہے جس کے تحت ترقی یافتہ ممالک میں فیسیں زیادہ جبکہ ترقی پذیر ممالک میں کم ہوتی ہیںماہرین کی کمی یا دستیابی کے حساب سے بھی فیسیں مقررکی جاتی ہیں جس شعبے میں ڈاکٹرز کی کمی ہو فیسیں زیادہ وصول کی جاتی ہیںجبکہ سرکاری و پرائیویٹ سیکٹر کا فرق بھی واضح ہوتا ہے سرکاری ہسپتالوں میں فیسیں سبسڈائزڈ ہوتی ہیں جبکہ پرائیویٹ کلینکس مہنگے ہوتے ہیں یہاں پر حال یہ ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں بھی مارکیٹ ریٹ کے مطابق فیسیں وصول کی جارہی ہیں بین الاقوامی تنظیموں کی گائیڈلائنز کے مطابق ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن جیسی تنظیمیں ترقی پذیر ممالک کیلئے معیاری فیسیں تجویز کرتی ہیں لیکن خیبر پختونخوا میں یہ ذمہ داری ڈاکٹرز نے خود سنبھال رکھی ہے اور محکمہ صحت خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ڈاکٹروں کی بھاری بھر کم فیسیں اپنی جگہ صوبائی دارالحکومت سمیت صوبہ بھر میں لیبارٹری ٹیکنیشنز سے لے کر ہسپتال کے اردلیوں تک کے کلینکس کی بھر مار اور ان کے ہاتھوں رقم اور صحت سے محروم ہونے والوں کا المیہ بھی سنگین امر ہے غیر قانونی طور پر چلنے والے میڈیکل سنٹرز میں بھی مریضوں کی صحت اور جیب دونوں کھلواڑ ہوتا ہے یوں عوام کی جیب اور صحت دونوں پر ڈاکہ ڈالنے کا عمل ہر سطح پر جاری ہے صحت کارڈ کی سہولت کا ناجائز استعمال بھی کسی سے پوشیدہ امر نہیں صحت کے شعبے میں اچھی حکومتی کوششوں کے باوجود جس طرح آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے اس کا اعلیٰ ترین سطح پرنوٹس لے کر سخت ضابطے متعارف کراکر ہی عوام کو لٹیروں سے محفوظ بنایا جا سکتا ہے جس پر حکومت کی فوری توجہ درکار ہے۔

مزید پڑھیں:  چینی کی ذخیرہ اندوزی