اس قدر رسوائی افسوس!

عزت نفس ہوتی کیا ہے یہ کیسے مجروح ہوتی ہے یہ تو کسی نے ہم کو بتایا ہی نہیں اور نہ ہی کبھی ہم نے سیکھنے کی ضرورت محسوس کی قانون کیا ہوتی ہے اس کا احترام کیسے کیا جائے اور اس کی پیروی کیسے ہو اس سے ہم آشنا ہی نہیں ہمارے ہاں قوانین کا احترام اور ان کی پیروی کی بجائے قانون شکنی زیادہ قابل فخر چیز ہے یہی وجہ ہے کہ ٹریفک کا اشارہ توڑنا اسلحہ کی نمائش ہوائی فائرنگ وغیرہ وغیرہ کے مظاہر سر عام اور سر عام بڑے فخر سے ہوتی ہیں ہر ایک اپنے دائرہ کار میں قانون شکنی اور قانون سے کھلواڑ کو اپنا حق سمجھتا ہے ایک استاد اپنے لڑکے کو کھلے عام یہ کہہ کر نقل کروا رہا تھا کہ یہ ان کا حق ہے آخر اس ٹیچنگ میں اس کے علاوہ ہے ہی کیا اگر وہ اپنے بیٹے کو نقل ہی نہ کروا سکے تو پھر ۔۔ ۔ اس نوکری پر مگر جب ا یٹا کے امتحانات یعنی ٹیسٹ میں دوسروں کے بچے موبائل کا استعمال کرتے ہوئے پکڑا جائے تو موبائل سمیت اس کی تصویر کھینچ کر فیس بک پر ڈال دی جاتی ہے کہ دنیا دیکھے کہ کمال کی جاسوسی کا مظاہرہ کرکے نقل پکڑا گیا ہے گویا انہوں نے ایک طالب علم کو نہیں کلبھوشن یادیو کا پورا نیٹ ورک پکڑ لیا ہو۔اس قدر رسوائی اور ذلت کا شکار بنانا ان طالب عملوں کو جنہوں نے نقل کی ہمت کی کیا کسی کو معلوم نہیں کہ ایسا کرنا ہتک عزت ہے یہ سائبر کرائمز میں آتا ہے قانون کے مطابق جو بھی جان بوجھ کر اور عوامی طور پر کسی شخص کی ساکھ یا راز داری کو نقصان پہچانے والی معلومات کی نمائش کرتا ہے پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016ء سیکشن 20 کے تحت اسے جرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔اسی طرح آئین پاکستان کے آرٹیکل 14 کے تحت ہر شہری کی عزت اور نجی زندگی کا تحفظ بنیادی حق ہے پاکستان پینل کوڈ 1860 کی دفعہ 355 کے مطابق کسی کی عزت نفس کو مجروح کرنا جرم ہے خیبر پختونخوا رائٹ ٹو ا نفارمیشن ایکٹ 2013ء کے سیکشن 18 کے تحت بغیر اجازت کسی فردکی ذاتی معلومات ظاہر کرنا منع ہے سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق ملزم کو جرم ثابت ہونے تک بے گناہ تصور کیا جائے گا اور اسے میڈیا یا عوام میں رسوا کرنا غیر قانونی ہے اس طرح نیشنل ایکشن پلان اور پولیس رولز 1934(رول 22.48) کے تحت زیر حراست یا زیر تفتیش افراد کی شناخت بغیر عدالتی اجازت ظاہر کرنا ممنوع ہے ۔نقل اور امتحان میں ناجائز ذرائع استعمال مذموم فعل ہے اس لعنت کی روک تھام سختی سے ہونی چاہئے مگر کمرہ امتحان کے اندر کسی امیدوار اور طالب علم کے لئے یہ سزا کیا کم ہے کہ ان کا پرچہ یا ان کا ٹیسٹ کینسل کر دیا جائے میرے نزدیک جس پرچہ یا ٹیسٹ میں غیر قانونی ذریعے کا استعمال کرتے ہوئے کوئی پکڑا جائے صرف اسی ٹیسٹ اور پرچے کی منسوخی کافی سزا ہے بہرحال یہ ممتحن کی صوابدید ہے لیکن ان کی ویڈیو بنا کر تصویر کھینچ کر جس طرح سوشل میڈیا پر ڈال دیا جاتا ہے اس کا اختیار کسی کو نہیں یہ تجاوز اور حددرجہ قابل اعتراض اور خلاف قانون ہے ایسا کرنے والے نقل کرنے والوں کو بے نقاب نہیں کرتے بلکہ ان کی رسوائی کا باعث بن رہے ہیں یہ بھی برابر کے ملزم ہیں جن کے خلاف کارروائی کرکے ان کی تصاویر بھی اسی طرح اپ لوڈ کرنے کی ضرورت ہے اور لوگوں کو بتانے کی ضرورت ہے کہ اس نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے ۔ ان پر ہتک عزت اور سائبر کرائمز کے دفعات کے تحت مقدمات کا اندراج ہونا چاہئے مگر کسی امیدوار اور طالب علم کے والدین سمجھیں بھی تو یہ جو ایف آئی اے سائبر کرائم کا نوٹس لیتی ہے یہ جو پیکا ایکٹ بنی ہے کیا اس کا استعمال صرف وہ لوگ کریں گے جو مقتدر ہوں اور انہی کی عزت نفس اور وقار ہوتا ہے کسی طالب علم کی کسی امیدوار کی کوئی عزت نفس نہیں ہوتی کیا حکومت اور حکومتی ادارے اپنے ماتحت یا پھر کسی بھی جانب سے قانون کی دھجیاں اڑانے والوں کو یوں کھلی چھٹی دیتی رہے گی اس معاشرے میں نفرت اور انتہا پسندی آخر عروج پر ہی کیوں رہتی ہے اس کی ایک بڑی وجہ معاشرے میں اہانت اور نفرت کی اس طرح کی مسلسل آبیاری ہے جس کا شکار ہونے والے موقع ملنے پر دوسروں سے اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کو دہرانے سے ذرا دریغ نہیں کرتے کسی کی پرائیویسی کا خیال کون رکھے گا بڑے بڑے ملزموں کو یوں سرعام رسوا کرنے کی اجازت نہیں ان کا منہ ڈھانپ کر میڈیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے مگر نقل کرنے والوں کی اس قدر بے توقیری خود ایٹا کی کارکردگی ملی بھگت اور پرچہ آئوٹ کرنے کا ریکارڈ ابھی لوگوں نے بھلایا نہیں معلوم نہیں درون خانہ کیا کیا ہوتا ہو گا بس اتنا اشارہ کافی ہے تفصیل میں جائیں تو نجانے کیا کیا دہرانے کی نوبت آجائے ۔کسی امیدوار کی نقل ضرور پکڑیئے ان کو غیر قانونی ذرائع کا استعمال نہ کرنے دیں امیدوار کو یقین ہو کہ ملی بھگت ‘بدعنوانی ‘اقرباء پروری بھاری رشوت اور چوری چھپے کوئی ذریعہ بھی کارگر نہ ہو گا تبھی وہ اس سے باز آئے گا دنیا کے ان معاشروں میں جہاں اس طرح کے افعال کی گنجائش نہیں ہوتی وہاں پہلے سے ماحول بنا ہوتا ہے تو اس طرح کی چیزیں بھی سامنے نہیں آتیں جہاں ٹیسٹ کے مراکز سے لے کر ا نٹرویو اور سلیکشن کے مراحل پر سب کچھ چلتا ہو وہاں امیدوار اس طرح کے ذریعے کا استعمال خود کرنے پر خود بخود آمادہ ہو گا۔ یہاں سرکاری ملازمتیں بکتی ہیں سیاسی اثرورسوخ یا پھر پیسہ بھاری رقم ہی حصول ملازمت کی ضمانت بن گئی ہے میرٹ کی پابندی کرنے کو رواج دیں شفافیت لائیں قابلیت کو معیار بنائیں تو اس طرح کے ہتھکنڈے خودبخود دم توڑ دیں جنوبی اضلاع کے سادہ اور غریب امیدواروں کو بالخصوص جس طرح سوشل میڈیا پر ڈال کر رسوا کیا گیا خود وزیر اعلیٰ کے اپنے آبائی حلقہ اور علاقے کے امیدواروں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا بلا شبہ وہ کمرہ امتحان کے ملزم ضرور تھے مگر ان کی معاشرتی رسوائی ہوئی اس کے وہ ہر گز حقدار نہیں تھے جن لوگوں نے ان کی رسوائی کا سامان کیا ان کو بھی بے نقاب اور ان کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہئے تاکہ آئندہ کسی کی عزت نفس سے کوئی کھلواڑ نہ ہو۔

مزید پڑھیں:  جھوٹوں کا اعتراف سچ